کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 343
امیر المومنین! یہ دن ہماری زندگی کے کٹھن دن ہیں، اور اگر میرا بڑھاپا نہ ہوتا تو … لیکن یہ سنتے ہی اس کا عابد وزاہد بیٹا کلاب عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے آکھڑا ہوا، اور کہا: لیکن میں، اے امیر المومنین! اپنی جان کو فروخت کردوں گا، اور دنیا کے بدلے آخرت خریدوں گا۔ ایک کھجور کے سائے میں اس کا باپ کھڑا تھا وہ اپنے بیٹے سے چمٹ گیا اور کہا: اپنے کمزور والدین کو چھوڑ کر مت جاؤ، ہم نے بچپن میں تمہاری پرورش کی، اور جب ہمیں تمہاری ضرورت پڑی تو تم ہمیں چھوڑ کر جا رہے ہو؟ کلاب نے کہا: ہاں، میں ان سے بہتر پانے کے لیے ان کو چھوڑ رہا ہوں، اور پھر اپنے باپ کو راضی کرکے جہاد پر نکل گیا۔ باپ تھوڑی دیر کھجور کے درخت کے نیچے ساکت کھڑا رہا، اتنے میں دیکھا کہ ایک کبوتری اپنے چوزوں کو بلا رہی ہے، یہ منظر دیکھ کر بوڑھا باپ رونے لگا، اور بوڑھی ماں بھی رونے لگی، پھر بوڑھے باپ نے یہ اشعار کہے: لمن شیخان قد نشدا کلابا کتاب اللہ لو قبل الکتابا ’’دونوں بوڑھوں کا سہارا کون ہوگا! ان دونوں نے کلاب کو اللہ کی کتاب کا واسطہ دیا، کاش وہ کتاب الٰہی کی بات مان لیتا!‘‘ أنا دیہ فیعرض فی إباء فلا وأبی کلاب ما أصابا ’’میں نے اسے پکارا، لیکن اس نے اعراض کرتے ہوئے انکار کردیا، قسم ہے میرے باپ کی، کلاب اپنے فیصلہ میں صائب نہیں تھا۔‘‘ لذا ہتفت حمامۃ بطن وج علی بیضاتہا ذکرًا کلابا ’’اسی لیے جب وادی ’’وج‘‘ کی کبوتری نے اپنے چوزوں کو کوکو کہہ کر بلایا تو ان دونوں نے کلاب کو یاد کیا۔‘‘ فإن مہاجرین تکنفاہ ففارق شیخہ خطاً و خابا ’’دو مہاجروں نے اس کو پالا پوسا اور حفاظت میں رکھا، لیکن اس نے غلطی کرتے ہوئے اپنے بوڑھے (والدین) کو داغ مفارقت دے دیا، اور خسارے میں رہا۔‘‘ ترکت أباک مرعشۃ یداہ وأمک ما تسیغ لہ شرابا
[1] زھر الآداب، القیروانی: ۱/ ۵۴۔ الأدب فی الإسلام، ص: ۹۲ [2] ادب صدر الاسلام، د/ واضح المصد، ص: ۹۲،۹۳