کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 341
ان کو ڈھانپے ہوئے ہے۔‘‘ أہلی فدائک ما بینی وبینہم من عرض داویۃ تعمی بہا الخبر ’’میری آل واولاد آپ پر قربان، میرے اور ان کے درمیان لمبا چوڑا چٹیل میدان حائل ہے، جن کی وجہ سے میں ان کے حالات سے بالکل ناواقف ہوں۔‘‘ عمر رضی اللہ عنہ ان اشعار سے متاثر ہو کر رونے لگے، اور حطیئہ کی رہائی کا حکم دے دیا، اور اس کی زبان پر لگام لگانے کے لیے مسلمانوں کے حق میں اس کے ہجویہ کلام کو (۳۰۰۰) درہم میں خرید لیا، تو حطیئہ نے اس پر افسوس کرتے ہوئے کہا: وأخذت أطراف الکلام فلم تدع شتمًا یضر ولا مدیحًا ینفع ’’آپ نے میرے کلام کے نوک پلک تک کو خرید لیا، آپ نے تکلیف دینے والی کوئی گالی نہیں چھوڑی اور نہ کوئی مدح سرائی کہ جو کسی کو نفع پہنچائے۔‘‘ ومنعتنی عرض البخیل فلم یخف شتمی وأصبح أمن لا یفزع ’’آپ نے مجھے (اس کلام کو) بخیل پر پیش کرنے سے روک دیا، اب وہ میری ہجو سے نہیں ڈرتا، وہ بڑا پر امن ہے، اسے کچھ بھی گھبراہٹ نہیں۔‘‘ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حطیئہ بالکل یہ ہجو چھوڑنے پر دل سے مطمئن نہ ہوا، اس لیے عمر رضی اللہ عنہ نے اسے طلب کیا اور اپنے سامنے بٹھایا اور اسے اس کی زبان کاٹنے کی دھمکی دی تو حطیئہ نے کہا: امیر المومنین! میں نے اپنی ماں اور باپ تک کی ہجو کی ہے، یہاں تک کہ اپنی بیوی اور خود اپنی ذات کو ہجو سے نہیں بخشا۔ یہ سن کر عمر رضی اللہ عنہ مسکرانے لگے اور اسے معاف کردیا۔ [1] اور پھر عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں حطیئہ ہجو کہنے سے باز آگیا۔ اسی سے ملتا جلتا ایک دوسرا واقعہ (زہر الآداب) کے مصنف نے بھی ذکر کیا ہے: لکھتے ہیں کہ قبیلہ بنو عجلان کے لوگوں کو ’’بنو العجلان‘‘ کے نام پر بڑا فخر تھا، اس نام سے پکارا جانا وہ لوگ باعث شرف وعزت سمجھتے تھے، کیونکہ ان کا دادا عبداللہ بن کعب ’’عجلان‘‘ نام سے اس وجہ سے معروف ہوا کہ وہ مہمانوں کی ضیافت میں پیش قدمی