کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 34
لوگوں کی ضرورتوں کی تکمیل کے اہتمام اور سماج کے سرکردہ افراد کی تربیت، بعض نامناسب اور بے جا تصرفات پر نکیر، صحت عامہ اور نظام احتساب کا اہتمام، تجارت اور بازاروں کی اصلاح، نیز معاشرہ میں شریعت کے اہم مقاصد کے لازمی وجود کی طرف آپ کی خاص توجہ، مثلاً توحید کی مکمل حمایت، بدعتوں اور گمراہیوں کا سد باب، امور عبادت کا اہتمام اور مجاہدین کی عزت و ناموس کی مکمل حفاظت وغیرہ تمام چیزوں کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے۔ میں نے آپ کے اہتمام علم اور مدینہ میں اپنی رعایا کی تعلیم اور صحیح رہنمائی کے بارے میں گفتگو کی ہے نیز یہ کہ آپ نے مدینہ کو فقہ و فتاویٰ کا مرکز اور ایسا مدرسہ بنا دیا جس سے علماء، مبلغین، گورنر اور قاضی حضرات فارغ ہوئے اور دوسرے شہروں کی علمی درسگاہوں مثلاً مکہ، مدینہ، بصرہ، کوفہ، شام اور مصر کے مدارس میں آپ کے نمایاں کردار و نقوش کو کھول کھول کر بیان کر دیا ہے۔ سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے متخصص علماء پر مشتمل ایک علمی گروہ تیار کیا اور اسے شہروں میں بھیجا۔ فتوحات کا دائرہ وسیع ہونے کے ساتھ امراء اور قائدین (کمانڈروں) کو حکم دیا کہ وہ مفتوحہ علاقوں میں مساجد قائم کرتے جائیں تاکہ وہ دعوت، تعلیم، تربیت اور اسلامی تہذیب و ثقافت کی نشر و اشاعت کا مرکز بن جائیں۔ مسجدیں ہی اسلام کی اوّلین علمی درسگاہیں تھیں، وہیں سے علمائے صحابہ بخوشی مسلمان ہونے والی جماعت کو دین سکھانے جاتے تھے، آپ کے دور خلافت میں تقریباً ۱۲ ہزار مسجدوں میں نماز جمعہ ادا کی جاتی تھی۔ ان علمی مراکز کا قیام ان عسکری مراکز کے بعد ہوا جنہوںنے عراق، ایران، شام، مصر اور مغرب کے شہروں کو فتح کیا، ان علمی، فقہی اور دعوتی مراکز کی قیادت ان ہاتھوں میں تھی جن کی تربیت مدینۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں سے ہوئی تھی۔ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان باصلاحیت افراد سے فائدہ اٹھایا، ان کی بہترین رہنمائی کی اور مناسب مقام پر ان کو استعمال کیا، پھر ان صلاحیتوں نے ایسی علمی اور فقہی تحریک والی جماعت تیار کی جو فتوحات کے درپے تھی۔ میں نے اس کتاب میں عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے شعر و شعراء سے لگاؤ کا ذکر کیا ہے، آپ خلفائے راشدین میں سب سے زیادہ شعر سننے اور اس کی اصلاح کے شوقین تھے اور خود ان میں سب سے زیادہ شعر کہنے والے بھی تھے۔ یہاں تک کہ بیان کیا جاتا ہے کہ سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو جب کوئی معاملہ پیش آتا تو اس پر کوئی شعر ضرور کہتے۔ آپ کو ادبی تنقید میں مہارت حاصل تھی۔ آپ کے پاس کچھ ایسے ادبی معیار تھے کہ جب کسی شعری نص کو دوسری نص پر ترجیح یا کسی شاعر کو کسی شاعر پر مقدم کرنا ہوتا تو ان خوبیوں کو معیار بناتے، تاکہ عربی زبان میں عربیت کا نکھار ہو، الفاظ عام فہم ہوں، کلمات میں ربط ہو، عبارت میں پیچیدگی نہ ہو، کلام بالکل واضح ہو، بقدر ضرورت ہی الفاظ کا استعمال ہو، نیز یہ کہ صحیح جگہ پر الفاظ کے استعمال ہی میں اس کی خوبصورتی ہے۔ آپ شعراء کو ہجو کہنے یا ہر وہ کلام جو اسلامی شریعت کے مزاج کے خلاف ہو اس سے منع کرتے تھے اور خلاف ورزی کی صورت میں ان کی سرزنش کے لیے کئی طریقے اپناتے تھے، مثلاً یہ کہ آپ نے حطیئہ سے اس کا وہ