کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 337
’’شعر ہی عرب قوم کا اصل علم تھا، ان کے پاس اس سے زیادہ صحیح کوئی دوسرا علم نہ تھا، جب اسلام آیا تو اہل عرب جہاد اور رومیوں سے معرکہ آرائی میں پھنس کر اس سے غافل ہوگئے، شعر اور اس کی روایت کو چھوڑ دیا، لیکن جب اسلام خوب پھیل گیا، فتوحات کا دائرہ وسیع ہو گیا، اور عربوں نے چین وسکون کی زندگی پائی تو پھر شعر گوئی اور اس کی روایت کی طرف پلٹے، کسی مدون دیوان کا سہارا نہیں لیا، اور نہ کسی شعری تالیف ومجموعے پر اعتماد کیا، وہ لوگ اسی طرح کی شعری وادبی زندگی سے مانوس رہے، بہت سارے شعرائے عرب موت اور قتل کے ذریعہ سے اس دنیا سے رخصت ہوگئے، اس لیے تھوڑے ہی شعری مجموعے کو وہ یاد کرسکے، اور اس کا بیشتر حصہ ضائع ہوگیا۔‘‘ [1] آپ کی نگاہ میں وہی شاعر قابل قدر اور محبوب ہوتا تھا جس کا دل ایمان سے لبریز ہو،اور جذبات واحساسات بلند اسلامی کردار واقدار کے آئینہ دار ہوں، نیز اس نے ان احساسات کو ایسا شعری جامہ پہنایا ہو جس سے حقیقی دین داری کی خوشبو پھوٹ رہی ہو، اور جن اخلاق فاضلہ کو اپنانے اور گلے لگانے کا اسلام نے حکم دیا ہے، اس کے اشعار نے ان اخلاق کی تصویر کشی کی ہو۔ اس کے برخلاف جو اشعار اسلام کے اصولوں اور اس کے اقدار وتعلیمات کے خلاف ہوتے آپ ان کا انکار کردیتے، اور اس قسم کے اسلام مخالف اشعار کہنے والوں سے آپ سختی کا رویہ اپناتے، نیز اس سلسلے میں آپ کی حساس طبیعت، اور بلند ذوق ہی آپ کا معاون بنتا تھا، کہ آپ ادبی نص کی گہرائیوں میں اتر کر اسلامی اصول وتعلیمات سے ہم آہنگ بلند پایہ اخلاق و اقدار کو سامنے لاتے تھے۔ [2] ۲: عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حطیئہ و زبرقان بن بدر: روایت کیا جاتا ہے کہ (مخضرمی شاعر) حطیئہ جس کی کنیت ابوملیکہ اور نام جرول بن اوس ہے، نیز بنوقطیعہ بن عبس سے جس کا تعلق ہے، ایک مرتبہ قحط سالی سے بھاگ کر روزی کی تلاش میں عراق جا رہا تھا، راستے میں زبرقان بن بدر بن امرء القیس بن خلف تمیمی سعدی [3] سے اس کی ملاقات ہوگئی۔ زبرقان اپنی قوم کے صدقات لے کر عمر بن خطاب کے پاس جا رہا تھا۔ زبرقان نے حطیئہ کو دیکھ کر اسے پہچان لیا، پھر دونوں میں گفتگو ہوئی اور زبرقان کو حطیئہ کی خستہ حالی کا علم ہوا تو اس نے حطیئہ سے کہا کہ چلو میری قوم میں رہو، اور میرے لوٹنے کا انتظار کرو چنانچہ حطیئہ وہاں چلا گیا، لیکن بغیض بن عامر بن شماس بن لؤی بن جعفر انف الناقہ، جو زبرقان کا حریف تھا، اس نے حطیئہ کو زبرقان سے بدظن کرنے اور اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کی، اور اسے زبرقان کے خلاف بھڑکایا اور کامیاب ہوگیا۔ حطیئہ نے اس کردار سے خوش ہو کر بنو انف الناقہ کی تعریف اور
[1] أدب الإملاء، السمعانی، ص: ۷۱ [2] العمدۃ، أبورشیق: ۱/ ۱۵ [3] الأدب فی الاسلام، د/ نایف معروف، ص: ۱۷۱ [4] الکامل فی الأدب: ۱/ ۲۲۷ [5] المعجم الکبیر، طبرانی: ۷/ ۱۲۹۔ الأدب الإسلامی، ص: ۱۷۱ [6] الأدب الإسلام، ص: ۱۷۱۔ العمدۃ، أبورشیق: ۱/ ۱۷