کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 336
سیّدناعمر رضی اللہ عنہ انہی اشعار کو پسند کرتے تھے جن میں اسلامی زندگی کا جوہر چمکتا ہو، وہ اسلامی خصوصیات کی عکاسی کرتے ہوں اور ان کے معانی ومطالب اسلام کی تعلیمات کے خلاف اور اس کی اقدار سے متعارض نہ ہوں۔ آپ مسلمانوں کو بہترین اشعار یاد کرنے پر ابھارتے، اور فرماتے تھے: ’’شعر سیکھو، اس میں وہ خوبیاں ہوتی ہیں جن کی تلاش ہوتی ہے، نیز حکماء کی حکمت ہوتی ہے، اور وہ مکارمِ اخلاق کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔‘‘ [1] اور ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو خط لکھا جو آپ کی طرف سے عراق کے حاکم تھے: ’’تم لوگوں کو شعر سیکھنے کا حکم دو، کیونکہ وہ بلند اخلاق، درست رائے، اور نسبوں کی معرفت کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔‘‘ [2] آپ شعر کے فوائد کے سلسلے میں صرف اتنے پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ اسے دلوں کی چابی اور انسان کے جسم میں خیر کے جذبات کا محرک تصور کرتے ہیں، آپ شعر کی فضیلت وفائدہ کو اس طرح بتاتے ہیں: ’’انسان کا سب سے بہترین فن شعر کے چند ابیات کی تخلیق ہے، جنہیں وہ اپنی ضرورتوں میں پیش کرتا ہے۔ ان سے کریم وسخی آدمی کے دل کو نرم کرلیتا ہے، اور کمینے شخص کے دل کو اپنی طرف مائل کرلیتا ہے۔‘‘ [3] بچوں کی کامل تربیت کی طرف رہنمائی کرتے ہوئے ان کے آباء سے کہتے ہیں کہ انہیں اپنی اولاد کو شعر کی خوبیوں سے واقف کرانا چاہیے۔ آپ فرماتے ہیں: ’’اپنے بچوں کو تیراکی اور تیر اندازی سکھاؤ، نیز گھوڑے پر اچھل کر بیٹھنے دو اور انہیں بہترین اشعار سناؤ۔‘‘ [4] جاہلی شعراء کے کلام کو بھی کافی لگن سے یاد کرتے تھے، اس لیے کہ کتابِ الٰہی کے افہام وتفہیم سے اس کا گہرا تعلق ہے۔ آپ نے کہا: تم اپنے دیوان کو حفظ کرلو اور گمراہ نہ رہو۔ سامعین نے آپ سے پوچھا: ہمارا دیوان کون سا ہے؟ آپ نے فرمایا: دورِ جاہلیت کے اشعار۔ ان میں تمہاری کتاب (قرآنِ مجید) کی تفسیر ہے اور تمہارے کلام کے معانی ہیں۔ [5] آپ کا یہ فرمان آپ کے شاگرد اور ترجمان القرآن عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے اس مؤقف سے متفق ہے، جس میں آپ نے کہا ہے کہ جب تم قرآن پڑھو اور اس کو نہ سمجھ سکو تو اس کا مفہوم ومعنی عرب کے اشعار میں تلاش کرو، کیونکہ شاعری عربوں کا دیوان ہے۔ [6] عمر رضی اللہ عنہ کے خیال میں جاہلی دور کا سب سے صحیح علم شعر ہی تھا، روایات میں ہے کہ آپ نے فرمایا:
[1] تاریخ الطبری: ۵/ ۲۱۸ [2] عمر بن الخطاب، محمد أبوالنصر، ص: ۲۰۹ [3] عمر بن الخطاب، محمد أبوالنصر، ص: ۲۱۰ [4] الکامل فی الأدب: ۲/ ۳۰۰