کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 335
وأکسٰی لبرد الخال قبل ابتذالہ واعطی لرأس السابق المتجرد[1] ’’اور نہ آپ سے زیادہ خیر کا لباس اس کے بوسیدہ ہونے سے قبل پہننے والا اور نہ سبقت کرنے والے کے ننگے سر کو زیادہ ڈھانکنے والا۔‘‘ ایک باحث ومحقق مذکورہ مثالوں سے اندازہ لگا سکتا ہے کہ آپ سے پہلے اور آپ کے دور کے اشعار آپ کے حافظہ اور خزینۂ معلومات میں منظم انداز میں ہمہ وقت حاضر رہتے تھے، کیونکہ روزمرہ کی زندگی میں اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات کے مناسب اشعار برجستہ آپ کی زبان پر ہوا کرتے تھے۔ صرف اسی پر بس نہیں، بلکہ آپ نے اسلام دشمنی میں کہنے جانے والے اشعار کو بھی حفظ کرلیا تھا، چنانچہ ہند بنت عتبہ نے حمزہ رضی اللہ عنہ اور مسلمانوں کے خلاف جو اشعار کہے تھے، آپ نے وہ اشعارحسان بن ثابت کو سنائے، [2] اور انہی اشعار نے الزامی جواب دینے کے لیے حسان رضی اللہ عنہ کو برانگیختہ کیا۔ بہرحال ہمیں یہ کہنے میں کوئی تردد نہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ کافی حساس، اور بیدار مغز واقع ہوئے تھے، شعر سے لطف اٹھاتے، اسے روایت کرتے اور اس میں اپنی صحیح رائے قائم کرتے تھے۔ تاہم واضح رہے کہ آپ شاعر نہ تھے، جیسا کہ بعض محققین کا خیال ہے۔ جس نے بھی آپ کو شاعر کہا ہے بہرحال انصاف پسند ناقدین اور ادباء اسے تسلیم نہیں کرتے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اپنی قوم میں آپ کی زندگی کھلی کتاب تھی، ان سے کبھی کوئی چیز آپ نے پوشیدہ نہ رکھی، آپ کی مجلسیں عام ہوتی تھیں اور اس میں خاص وعام سب شرکت کرتے تھے، پس اگر عمر رضی اللہ عنہ کی کوئی شعری تخلیق ہوتی تو شرکائے مجلس ضرور اسے آپ سے روایت کرتے، اسے بار بار پڑھتے، آپس میں ایک دوسرے کو بتاتے، اور وہ اشعار راویوں کے ذریعہ سے ہم تک اسی طرح پہنچتے جس طرح آپ کی سیرت وسوانح ہم تک پہنچی۔ اسی طرح متقدمین ناقدین شعر وادب نے یہ کہیں نہیں لکھا کہ عمر رضی اللہ عنہ شاعر تھے۔ نہ تو ابن سلام نے اپنی کتاب ’’طبقات الشعراء‘‘ میں، نہ ابن قتیبہ نے اپنی کتاب ’’الشعر والشعراء‘‘ میں، اور نہ جاحظ نے اپنی کتاب میں اسے ذکر کیا ہے۔ حالانکہ جاحظ نے عمر رضی اللہ عنہ کے ادب وبلاغت پر بہت زیادہ بحث کی ہے۔ [3] مبرد نے عمر رضی اللہ عنہ کی تاریخ میں متممّ بن نویرہ کی اپنے بھائی مالک بن نویرہ کے حق میں مرثیہ گوئی کا ذکر کرتے ہوئے عمر رضی اللہ عنہ کا وہ قول لکھا ہے جو آپ نے متممّ سے کہا تھا کہ ’’اگر میں شعر کہتا، جیسے کہ تم کہتے ہو، تو جس طرح تم نے اپنے بھائی کا مرثیہ لکھا ہے، اسی طرح میں بھی اپنے بھائی کا مرثیہ لکھتا۔‘‘ [4]
[1] مسند الشافعی، ص: ۲۰۹۔ أدب الاملاء، السمعانی، ص: ۷۱