کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 334
’’(اونٹنی) تیری ہی جانب دوڑ رہی ہے، اس حالت میں کہ اس کا زیر تنگ حرکت کررہا ہے، اور اس کے پیٹ میں بچہ اس کے آڑے آرہا ہے، اور اس حالت میں کہ اس اونٹنی (یعنی اونٹنی والے) کا دین نصاریٰ کے دین کے خلاف ہے۔‘‘ مذکورہ شعر کا قائل ایک نجرانی نصرانی ہے جو اسلام لانے کے بعد حج کرنے گیا تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے عرب کی ایک حکیم اوسی عورت سے پوچھا گیا کہ کون سا منظر سب سے حسین ہوتا ہے؟ اس نے کہا: ہرے بھرے باغات میں سفید محلات کا منظر۔ یہ سن کر عمر رضی اللہ عنہ نے عدی بن زید کا یہ شعر پڑھا: کدمی العاج فی المحاریب أو کالبیض فی الروض زہرہ مستنیر[1] ’’جیسے کہ ہاتھی کے دانت کی بنی ہوئی گڑیا جو صدر مجلس میں رکھی ہو، یا جیسے کوئی حسین وجمیل عورت جو کسی ایسے سبزہ زار میں کھڑی ہو جس کے پھول کھلے ہوئے ہوں۔‘‘ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں کسی ایک سفر میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا، رات میں ہم چل رہے تھے، میں آپ کے قریب ہوا، آپ نے اپنے پاؤں کے آگے اپنا کوڑا زور سے مارا اور کہا: کذبتم وبیت اللّٰه یقتل أحمد ونسلمہ حتی نصرع حولہ ’’ربّ کعبہ کی قسم تم جھوٹے ہو، تم اپنی اس بات میں جھوٹے ہو کہ احمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) قتل کردیے گئے، اور ہم آپ کو بچاتے تھے، یہاں تک کہ آپ کے اردگرد جام شہادت نوش کررہے تھے۔‘‘ ولما نطأ عن دونہ و نناضل و نذہل عن أبناء نا و الحلائل ’’جب کہ ہم آپ کی حفاظت میں آپ کے آگے نیزہ بازی اور تیر اندازی کررہے تھے اور اپنی اولادوں سے ہم اور ہماری عورتیں غافل تھیں۔‘‘ نیز کہا: وما حملت من ناقۃ فوق رحلہا أبرو أوفٰی ذمۃ من محمد ’’کسی اونٹنی نے اپنے کجاوے پر محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے زیادہ نیکوکار اور وعدہ وفا کرنے والا نہیں بٹھایا۔‘‘
[1] البیان، جاحظ: ۱/ ۲۴۱۔ الأدب فی الاسلام، نایف معروف، ص: ۱۶۹ [2] الادب فی الاسلام، د/ نایف معروف، ص: ۱۷۰ [3] منی ومزدلفہ کے درمیان ایک وادی کا نام ہے جہاں ابرہہ کی فوج تباہ ہوئی تھی۔ (مترجم) [4] مسند الشافعی، ص: ۱۲۲۔ بحوالہ: عمر بن الخطاب، د/ أبوالنصر، ص: ۲۰۹