کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 330
عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے متخصص علماء کی ایک جماعت تیار کی اور اسے بڑے بڑے شہروں میں بھیجا اور فتوحات اسلامی کی تحریک جس قدر وسیع ہوتی گئی آپ حکام وقائدین کو حکم دیتے رہے کہ مفتوحہ ریاستوں میں مسجدیں بناتے جائیں، تاکہ وہ مسجدیں وہاں کے دین جدید یعنی اسلام، علم ومعرفت اور اسلامی تہذیب وثقافت کی نشر واشاعت کا مرکز ہوں۔ چنانچہ مسجدیں ہی اسلام کی پہلی درس گاہ ہوئیں، اور وہیں سے حکیمانہ اسلوب وپالیسی اپناتے ہوئے علماء صحابہ نے امت کی تعلیم و تربیت کا بیڑا اٹھایا، تعلیم و تربیت کے اس حکیمانہ اسلوب کی بنیاد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے ہی میں پڑ چکی تھی، اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اسی منہج واسلوب کو اختیار کیا تھا، آپ کے دور خلافت میں جامع مساجد کی تعداد بارہ ہزار (۱۲۰۰۰) تک پہنچ چکی تھی۔ [1]یہ مساجد مسلمانوں کی تعلیم وتربیت اور ان کے دلوں کے تزکیہ وتہذیب کا کام کرتی تھیں، اور جب مسلمانوں نے یہ ضرورت محسوس کی کہ مساجد سے الگ بچوں کی تعلیم کا انتظام ہونا چاہیے تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے چھوٹے چھوٹے مکاتب بنانے کا حکم دیا اور بچوں کی تعلیم وتربیت کے لیے ان میں ایک ایک معلم ومدرس کو مقرر کردیا۔ [2] آپ نے طلب علم کے لیے طلبہ کی ہمت افزائی کی، ان کے لیے حصول علم کے راستوں کو آسان بنایا، ان کی ہمت افزائی کرتے ہوئے مالی وظائف جاری کیے، اور اپنے بعض عمال کو حکم دیا کہ ممتاز طلبہ کو بطور اعزاز خصوصی انعامات سے نوازیں۔ سعد بن ابی وقاص کے نام فاروقی حکم نامے میں آپ کے علم اور علماء سے قوی لگاؤ کو بالکل واضح طریقے سے دیکھا جاسکتا ہے، آپ نے ان کو حکم دیا تھا کہ ’’جو مال تقسیم کے بعد بچ جائے اسے قرآن کی تعلیم حاصل کرنے والوں کو دے دینا۔‘‘ [3] عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی یہ ہمت افزائی دراصل امت مسلمہ کے تمام نونہالوں کے لیے پیغام مسرت ہے کہ اگر انہوں نے خود کو اللہ کی کتاب یعنی قرآنِ مجید سیکھنے اور حفظ کرنے کے لیے فارغ کیا تو یقینا وہی لوگ قومی اعزاز اور تعاون کے مستحق ہوں گے۔ خاص طور پر ان ریاستوں میں جہاں لوگ نئے نئے مسلمان ہوئے ہیں، وہاں یہ اعزاز و انعام ان مخفی صلاحیتوں کو نکھارنے کا کام کرتا ہے، جن کے ذریعہ سے وہاں کے لوگ قرآنِ مجید اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو بخوبی سمجھ اور یاد کرسکیں۔ آپ ایسے تمام علوم کے سیکھنے سکھانے کا اہتمام کرتے تھے جن کا تعلق قرآن اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہو، خاص طور پر عربی زبان پر زیادہ ہی توجہ دیتے تھے۔ چنانچہ عربی زبان سیکھنے کے بارے میں آپ نے فرمایا: ’’عربی سیکھو، اس لیے کہ وہ عقل میں پختگی اور مروّت میں زیادتی پیدا کرتی ہے۔‘‘[4]
[1] صحیح مسلم، حدیث نمبر: ۵۶۷ [2] سنن البیہقی: ۶/ ۱۲۴۔ السلطۃ التنفیذیۃ: ۲/ ۷۶۶ [3] عصر الخلفاء الراشدۃ، ص: ۲۷۳ [4] عصر الخلفاء الراشدۃ، ص: ۲۷۳ [5] عصر الخلافۃ الراشدۃ، ص: ۲۷۵