کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 323
شام والوں کو یہ کہہ کر حصول علم پر ابھارتے تھے کہ کیا بات ہے کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے علماء فوت ہو رہے ہیں اور تمہارے جہال علم نہیں حاصل کرتے؟ علم حاصل کر و اس سے پہلے کہ وہ اٹھا لیا جائے، کیونکہ علماء کا اٹھایا جانا ہی علم کا اٹھا لیا جانا ہے۔ [1] حصولِ علم کی طرف رغبت دلانے والے آپ کے اقوال میں سے ایک قول یہ بھی ہے: ’’عالم بن کر زندگی گزارو یا متعلّم بن کر، یا علم سے محبت کرنے والے یا ان کے پیروکار بن کر رہو، اور پانچواں نہ بنو ورنہ ہلاک ہوجاؤ گے۔‘‘ حسن بصری کہتے ہیں کہ پانچواں بننا مبتدع (بدعتی) بننا ہے۔ [2] اور آپ کا قول ہے: ’’علم حاصل کرو، اگر تم اس سے عاجز ہو تو علم والوں سے محبت کرو، اگر ان سے محبت نہیں کرسکتے تو ان سے بغض ونفرت نہ کرو۔ [3] سنو! علم سیکھو اور سکھاؤ اس لیے عالم اور متعلّم ثواب میں برابر ہیں، اس کے علاوہ لوگوں کی زندگی میں کوئی بھلائی نہیں۔‘‘ [4] ’’تم عالم نہیں بن سکتے یہاں تک کہ متعلّم بنو، اور متعلّم نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے علم کے مطابق عمل نہ کرو۔‘‘[5] نیز آپ فرماتے تھے: ’’تم فقہ (اسلامی) پر عبور نہیں پاسکتے یہاں تک کہ قرآن پر مختلف اعتبار سے غور کرلو۔‘‘ [6] ابودرداء رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ کیا بات ہے آپ شعر نہیں کہتے؟ حالانکہ انصار میں سے شاید ہی کسی کا گھر بچا ہو جس نے شعر نہ کہا ہو؟ آپ نے جواب دیا: ہاں میں نے بھی شعر کہا ہے، سنیں: یرید المرء أن یعطی مناہ و یابی اللہ الا ما أرادا ’’انسان چاہتا ہے کہ اس کی تمام آرزوئیں پوری ہوجائیں، حالانکہ اتنا ہی ہونا ہے جتنا اللہ چاہے۔‘‘ یقول المرء فائدتی و مالی و تقوی اللہ افضل ما استفادا[7] ’’آدمی کہتا ہے یہ میرا فائدہ اور یہ میرا مال ہے، حالانکہ اللہ کا تقویٰ سب سے بہتر فائدہ ہے۔‘‘
[1] تفسیر التابعین: ۱/ ۴۷۲ تا ۴۸۴ [2] الانصار فی العصر الراشدی، ص: ۲۵۹ [3] غایۃ النہایۃ فی طبقات القراء، ابن الجوزی: ۱/ ۶۰۷ [4] التذکرۃ: ۱/ ۲۴ [5] تفسیر التابعین: ۱/ ۲۵۶