کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 314
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی علم فرائض میں زید رضی اللہ عنہ کی مہارت کی گواہی دیتے ہوئے فرمایا: (( أَفْرَضُہُمْ زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ۔))[1] ’’ان (یعنی صحابہ) میں سے فرائض کے سب سے زیادہ جاننے والے زید بن ثابت ہیں۔‘‘ مدینہ کے دیگر متعدد فقہاء نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی صحبت پائی، آپ کے شاگردوں میں سے چھ تابعین نے زیادہ شہرت پائی۔ علی بن مدینی کہتے ہیں: جن لوگوں نے زید رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی اور ہمارے نزدیک ان کی ملاقات ثابت ہے وہ لوگ یہ ہیں: سعید بن مسیب، عروہ بن زبیر، قبیصہ بن ذؤیب، خارجہ بن زید، ابان بن عثمان اور سلمان بن یسار۔ [2] اس مدنی درس گاہ کا دیگر علمی مدارس میں بڑا اثر تھا، جیسا کہ اس سے پہلے ہم واضح کرچکے ہیں۔ ۳: بصری درس گاہ: فاروقی حکم کی تعمیل میں بصرہ شہر کو سب سے پہلے عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ نے بسایا، ۱۴ھ میں انہوں نے اس کا نقشہ تیار کیا تھا، اس کے علاوہ بھی باتیں کہی گئی ہیں۔ اس موضوع پر ان شاء اللہ ہم تفصیلی گفتگو اس وقت کریں گے جب فاروقی دور خلافت میں نو آبادیاتی اور عمرانی ترقیوں کا ذکر کیا جائے گا۔ بہرحال بصرہ، کوفہ سے تین سال پرانا شہر ہے۔ [3] اور تمام تر فنون میں کوفہ کی درس گاہ سے آگے بڑھا ہوا ہے۔ یہاں بہت سارے صحابہ تشریف لائے اور مقیم ہوئے۔ [4] انہی میں سے ابوموسیٰ اشعری، عمران بن حصین رضی اللہ عنہما اوردیگر صحابہ ہیں، سب سے آخر میں یہاں انس بن مالک رضی اللہ عنہ تشریف لائے۔ [5] جو صحابہ کرام بصرہ آئے ان میں زیادہ مشہور ابوموسیٰ اشعری اور انس بن مالک رضی اللہ عنہما ہیں۔ ابوموسیٰ اشعری مکہ آکر اسلام قبول کرنے والوں میں سے تھے، انہوں نے مہاجرین کے ساتھ حبشہ ہجرت کی، صحابہ میں سب سے زیادہ ذی علم کہے جاتے تھے، وہ بصرہ آئے اور وہاں لوگوں کو دین کی تعلیم دی۔ [6] ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ ، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے بہت متاثر تھے، دونوں کے درمیان خط وکتابت ہوتی تھی، بہرحال ان شاء اللہ آئندہ صفحات میں عمال و قضاۃ کے ادارہ کی جب بحث ہوگی تو وہاں ان خطوط پر تفصیلی بحث ہوگی۔ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے علم، عبادت، ورع وتقویٰ، حیا، عزت نفس وخودداری، دنیا سے بے زاری اور اسلام
[1] طبقات ابن سعد: ۲/ ۳۶۹ [2] تفسیر التابعین: ۱/ ۳۷۹۔ فضائل الصحابۃ، أحمد بن حنبل، اثر نمبر: ۱۵۵۵ [3] طبقات ابن سعد: ۲/ ۳۷۰ [4] تفسیر التابعین: ۱/ ۳۸۱ [5] تفسیر التابعین: ۱/ ۵۰۶ [6] العلل، إمام أحمد: (۳/ ۲۵۹) (۵۱۴۵)۔ تفسیر التابعین: ۱/ ۵۰۶ [7] تفسیر التابعین: ۱/ ۵۰۶ [8] تہذیب تاریخ دمشق: ۵/ ۴۴۹۔ تفسیر التابعین: ۱/ ۵۰۸