کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 309
تھے۔ پھر مدینہ آتے اور مدینہ کے علماء سے اپنے فتویٰ کے بارے میں استفسار کرتے، وہ انہیں ان کے فتویٰ سے رجوع کرنے کو کہتے، آپ واپس عراق جاتے اور انہیں صحیح بات بتاتے۔ [1] مدنی مدارس نے دیگر مدارس پر بھی اپنا اثر چھوڑا، جس کے نتیجہ میں کوفہ کے علاوہ بقیہ تمام مسلم علاقے علمائے مدینہ کے تابع تھے، علم کے میدان میں خود کو ان کے برابر نہیں سمجھتے تھے، مثلاً شام ومصر کے علماء جیسے امام اوزاعی اور ان سے پہلے وبعد کے دیگر علماء، جیسے لیث بن سعد اور ان سے پہلے وبعد کے دیگر مصری علماء، ان لوگوں کے نزدیک اہل مدینہ کے عمل کی تعظیم اور ان کے قدیم مسلک کی اتباع ظاہر اور واضح ہے۔ اسی طرح بصرہ کے علماء جیسے ایوب، حماد بن زید، عبدالرحمن بن مہدی اور ان جیسے دوسرے علماء۔ اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ مذکورہ شہروں میں اہل مدینہ کے مسلک کو کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔ [2] مدنی مدارس کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ دیگر شہروں کے لوگ مدینہ والوں کے علم پر بھروسا کرتے تھے اور ہر علم وفتویٰ پر اسے مقدم رکھتے تھے۔ خطیب بغدادی نے روایت کیا ہے کہ محمد بن حسن شیبانی جب لوگوں کو امام مالک کی روایت سے حدیث سناتے تو آپ کا گھر کھچا کھچ بھر جاتا اور جب امام مالک کے علاوہ دوسرے کی روایت سے حدیث سناتے تو بہت کم لوگ حاضر ہوتے۔ آپ نے یہ صورت حال دیکھ کر فرمایا: اپنے ساتھیوں کو برے ناموں سے یاد کرنے والا تم سے بڑھ کر میں کسی کو نہیں جانتا۔ جب میں تم کو مالک کی سند سے حدیث سناتا ہوں تو جگہ مجھ پر تنگ کردیتے ہو اور جب تمہارے ساتھیوں کی سند سے تم کو کچھ سناتا ہوں تو کراہت محسوس کرتے ہوئے تم حاضر ہوتے ہو۔ [3] مدینہ والوں کے علاوہ جس نے جتنا مدینہ والوں سے علم حاصل کیا اسی تناسب سے وہ ایک دوسرے پر فضیلت رکھتے ہیں، وہ لوگ مدینہ والوں ہی کے علم کو برتری کا معیار شمار کرتے ہیں۔ چنانچہ مکہ والوں میں سے مجاہد اور عمرو بن دینار وغیرہ علماء کا کہنا ہے کہ ہمارا (علمی وفقہی) مقام تقریباً ایک دوسرے کے برابر تھا، یہاں تک کہ عطاء بن رباح مدینہ گئے اور جب وہاں سے لوٹے تب ان کی فضیلت ہم پر واضح ہوئی۔[4] سیّدناعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں مدینہ جن فقہی ذخائر سے مالا مال ہوا بہرحال اس کا سبب عمر رضی اللہ عنہ کی الہام یافتہ شخصیت ہی تھی۔ ان کے حق میں اس کامیابی کی گواہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت دے دی تھی جب دیکھا کہ وہ بیشتر باتوں میں ربّ کی مرضی کے مطابق رائے و مشورہ دیتے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ عمر رضی اللہ عنہ نے اسلامی ملک کے دارالخلافہ میں ایسا مدرسہ تعمیر کیا تھا جس سے علماء، مبلغین، دعوتی کارکن، حکمران اور قاضی وجج
[1] المدینۃ النبویۃ فجر الإسلام والعصر الراشدی: ۲/ ۴۷