کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 307
کہا: نہیں، امیر المومنین ایسا نہ کیجیے، کیونکہ یہ حج کا موسم ہے اس میں جاہل، گنوار اور نالائق طبیعت کے لوگ بھی اکٹھے ہوتے ہیں۔ جب آپ تقریر کرنے کھڑے ہوں گے تو یہی لوگ آپ کے نزدیک ہوں گے اور مجھے ڈر ہے کہ کہیں آپ کوئی بات کسی مقصد سے کہیں اور لوگ اسے اوپر ہی سے لے اڑیں۔ نہ تو اس کی حقیقت سمجھیں اور نہ ہی صحیح معنی ومراد پر محمول کریں۔ لہٰذا مناسب ہے کہ ابھی آپ کچھ نہ کہیں یہاں تک کہ مدینہ پہنچ جائیں۔ اس لیے کہ وہ دارالہجرت اور دارالسنہ ہے۔ پھر وہاں آپ شرفاء اور سمجھ بوجھ والے لوگوں کو بلائیں اور جو کہنا ہو وہاں پورے اعتماد اور قوت سے کہیں تاکہ اہل علم آپ کی بات کو اچھی طرح سمجھ لیں اور اس کو صحیح معنی ومراد پر محمول کریں۔ تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: سنیے، اللہ کی قسم! ان شاء اللہ مدینہ پہنچنے کے بعد میں سب سے پہلے یہی کروں گا۔ [1] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ اس حدیث سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ ’’مدینہ والے ہی علم وفہم اور دانائی کے مالک ہیں، اس لیے کہ عمر اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما مدینہ والوں کی اس خصوصیت پر متفق تھے۔‘‘ آگے فرماتے ہیں کہ ’’یہ استدلال صرف ان لوگوں کے حق میں صحیح ہے جو عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں تھے، نیز جو صحابہ مدینہ والوں کے ہم پلہ تھے ان کا بھی یہی حکم ہے اور معلوم ہوا کہ مذکورہ اختصاص سے یہ لازم نہیں آتا کہ ہر دور میں مدینہ کے ہر فرد کی یہی خصوصیت باقی رہے۔‘‘ [2] بہرحال معاشرتی ترقی اور فتوحات کی وسعت کے ساتھ ساتھ جن علمی مراکز و مدارس کا وجود ہوا ان کی نشوونما اور تعمیر و ترقی میں اس فاروقی دور کا زبردست اثر رہا، عمر رضی اللہ عنہ کے مدارس کے شاگرد مدینہ میں رہے اور مدینہ میں اپنے علم کی نشر و اشاعت کی، پھر ان شاگردوں کے شاگرد تیار ہوئے جو سرچشمۂ علم نبوت سے قریب ہونے اور مدنی ماحول میں زندگی گزارنے کی وجہ سے عظیم ترین شخصیتوں کے مالک ہوئے۔ عمر رضی اللہ عنہ کے بعض شاگردوں کو نو مسلموں کی دینی تعلیم وتربیت کے لیے دور دراز کے مفتوحہ علاقوں میں بھیج دیا گیا۔ اس طرح مدینۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے علم وفقہ میں ایک اونچا مقام پایا اور اس کے مدارس نے مفتوحہ علاقوں اور نو تشکیل شدہ مدارس مثلاً بصرہ اور کوفہ کے مدارس کی تعمیر وترقی میں کافی اثر دکھایا۔ مدینہ کی فقہی وعلمی مرکزیت کو ان مراحل میں سمجھا جاسکتا ہے: مدینہ مہبط وحی و تشریع تھا، خلفائے راشدین کے دور خلافت تک کوئی شہر اس کا مقابل نہ تھا۔ خلفائے راشدین کے دور میں مدینہ فقہاء صحابہ کا مرکز تھا، ان میں سب سے آگے عمر رضی اللہ عنہ تھے۔ ۳۵ھ میں سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ شہید کیے گئے، اور علی رضی اللہ عنہ کوفہ منتقل ہوگئے، لیکن مدینہ علماء ومفتیان صحابہ کا علمی مرکز بنا رہا، اس لیے کہ وہاں جو فقہاء صحابہ مقیم تھے وہ لمبی عمر تک زندہ رہے، پچاس سالوں سے زیادہ اور سوسال
[1] المدینۃ النبویۃ فجر الإسلام والعصر الراشدی: ۲/ ۴۵ [2] المدینۃ النبویۃ فجر الإسلام والعصر الراشدی: ۲/ ۴۵