کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 306
مرحلہ میں اسلام کی طرف سبقت کی تھی … انسٹیٹیوٹ (ایوان علم وفن) تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے ان کی بھلائی اور اس ضرورت کے پیش نظر ان کو اپنے پاس روک لیا تھا کہ امت کے مسائل کی سیاست وتدبیر میں وہ لوگ آپ کے معاون ہوں گے۔ آپ نے ان لوگوں کو ان کے علم سے فائدہ اٹھانے اور ان کے مشورہ وخیالات سے رہنمائی حاصل کرنے کی نیت سے ان کے اخلاص پر اعتماد کرتے ہوئے اپنے پاس روکا تھا۔ اس طرح ان صحابہ کرام کا علم مدینہ میں باقی رہا اور فتویٰ دینے والے فقہاء صحابہ کی تعداد (۱۳۰) تک پہنچ گئی۔ کثرت سے فتویٰ دینے والے سات لوگ تھے۔ ان کے نام ہیں: عمر، علی، عبداللہ بن مسعود، عائشہ، زید بن ثابت، عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم اجمعین ۔ ابومحمد بن حزم کا کہنا ہے کہ ان میں سے ہر ایک کے فتویٰ کی الگ الگ ضخیم جلدیں تیار ہوسکتی ہیں۔ [1] اور جن صحابہ کے فتاویٰ متوسط تعداد ومقدار میں ہیں ان میں ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں۔ اس لیے کہ وفات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مختصر مدت تک زندہ رہے، پھر وفات پاگئے۔ اسی طرح اس زمرہ میں ام سلمہ، انس بن مالک، ابوسعید خدری، ابوہریرہ، عثمان بن عفان، عبداللہ بن زبیر، ابوموسیٰ اشعری، سعد بن ابی وقاص، جابر بن عبداللہ، معاذ بن جبل، طلحہ، زبیر، عبدالرحمن بن عوف، عمران بن حصین، اور عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہم بھی شامل ہیں۔ محققین کا کہنا ہے کہ الگ الگ چھوٹی چھوٹی جلدیں ان کے فتاویٰ کی تیار ہوسکتی ہیں۔ [2] مذکورہ افراد میں سے اکثر لوگ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں مدینہ ہی میں رہے، صرف وہی لوگ باہر گئے جنہیں اسلامی حکومت کی وسعت کے نتیجہ میں، مفتوحہ ممالک کے باشندگان کو قرآن واحادیث نبوی کی تعلیم دینے کی غرض سے عمر رضی اللہ عنہ نے تعلیمی یا جہادی مہم پر بھیج دیا تھا۔ درحقیقت فاروقی سیاست ہی کے نتیجہ میں مدینہ مرکز علم و فقہ، اور دانشوران ومشیرگان کا شہر بنا، اس فاروقی سیاست کی کامیابی پر ابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ واقعہ واضح ثبوت ہے: ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے میں چند مہاجرین کا استاد تھا، میرے شاگردوں میں عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بھی تھے، ایک مرتبہ جب میں ’’منیٰ‘‘ میں ان کی قیام گاہ پر تھا تو اس وقت وہ عمر رضی اللہ عنہ کے پاس تھے اور یہ عمر رضی اللہ عنہ کا آخری حج تھا۔ عبدالرحمن میرے پاس آئے اور کہا: اگر آپ اس آدمی کو دیکھتے جو آج امیر المومنین کے پاس آیا اور کہا کہ اے امیر المومنین! کیا آپ فلاں آدمی کی خبر لیں گے؟ وہ کہتا ہے: اگر عمر فوت ہوجاتے تو میں فلاں سے بیعت کرلیتا، اللہ کی قسم ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت ہنگامی حالت میں ہوئی تھی اور پوری ہوئی۔ عمر رضی اللہ عنہ یہ سن کر غضب ناک ہوئے اور فرمایا: میں ان شاء اللہ آج شام کو لوگوں کے درمیان ایک تقریر کروں گا اور سب کو ان لوگوں سے خبردار کروں گا جو مسلمانوں کی حکومت کو ان سے غصب کرنا چاہتے ہیں۔ عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں نے
[1] أخبار عمر، ص: ۲۱۲ [2] أدب الدنیا والدین، ماوردی، ص: ۳۱۱۔ فرائد الکلام، ص: ۱۱۱