کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 301
خطبہ فاروقی اور حکمت واسرار کی باتیں: سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے حکمت سے بھری باتوں سے اپنے خطبہ کا آغاز کیا، آپ نے بتایا کہ حقیقی غنا قناعت سے پیدا ہوتی ہے، اور حقیقی فقیری طمع ولالچ سے پیدا ہوتی ہے اور یہ سچ ہے کہ لوگوں کے اموال کو للچائی نگاہوں سے نہ دیکھنا ہی قناعت کی روح ہے۔ جو شخص دوسروں کے مال سے ناامید رہتا ہے وہ اپنے پاس جو کچھ رکھتا ہے اسی پر قانع رہتا ہے اور جو قناعت شعار ہوتا ہے وہ دوسروں سے مستغنی ہوتا ہے، خواہ فقیر ہی کیوں نہ ہو اور جو شخص لالچی ہوتا ہے لوگوں کے مال پر للچائی نگاہ رکھتا ہے، وہ دل کا ہمیشہ فقیر ہوتا ہے، خواہ وہ مال دار ہی کیوں نہ ہو۔ اس کا مال اسے دوسروں سے بے نیاز نہیں کرتا اس لیے کہ اصل بے نیازی ومال داری دل کی بے نیازی ومال داری ہوتی ہے اور عقل سلیم کا تقاضا ہے کہ انسان اپنی ضرورت سے زیادہ دنیا کا طالب نہ بنے، اور اس کی دنیاوی امیدیں دوسروں کی ملکیت وجائداد سے نہ معلق ہوں۔ دنیا کو اس نظر سے دیکھے کہ یہ زوال کا گھر ہے۔ دنیا کی کشش اور چمک دمک دیکھ کر اس سے دھوکا نہ کھائے۔ [1] لوگوں کے ظاہر کو دیکھنا اور باطن کو چھوڑنا: اس خطبہ میں اس عمل کا ثبوت بھی ہے جس پر سلسلہ وحی منقطع ہونے کے بعد نظاماً عمل ہوتا چلا آرہا تھا کہ لوگوں کے ظاہر کا اعتبار کیا جائے گا اور باطن اللہ کے حوالے ہے۔ نیز اس خطبہ میں اشارہ ہے کہ قاضی و حاکم دلوں کے بھیدوں کا فیصل وحاکم نہیں ہے اور نہ وہ اس کی طاقت رکھتا ہے۔ ہاں وہ لوگوں کے ظاہری کردار وعمل کی اصلاح کا حاکم ہے اور جب لوگوں کا ظاہر درست اور صالح ہوگا تو انہی سے درست اور صالح معاشرہ بھی وجود میں آئے گا۔ اور پھر جب معاشرہ کا ظاہر بہتر ہوگا اور فواحش ومنکرات کھلے عام نہیں ہوں گے، فسق وفجور کو انجام دینے والے آزاد نہ ہوں گے، ایسی صورت میں معاشرہ کے ظاہر پر حکم لگایا جائے گا، اگرچہ اس میں کچھ ایسے لوگ ہوں جن کا باطن برا ہو۔ اس لیے کہ اصلاح اور اخلاقی خوبیاں جب تک معاشرہ میں باقی رہتی ہیں معاشرتی عادات ومراسم بھی اپنے نظام کے مطابق انجام پاتے رہتے ہیں، لیکن جو انحرافات اور اخلاقی خرابیاں مخفی ہوتی ہیں اسلامی معاشرہ بہرحال انہیں قبول نہیں کرتا اور پھر سماج کے ناسور اور بد کردار چھپنے اور الگ تھلگ رہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ بعض بخل نفاق کا حصہ ہیں: آپ کے فرمان: ’’جان لو کہ بعض بخل نفاق کا حصہ ہیں‘‘ کا عکس ان لوگوں میں صاف نظر آتا ہے جو اللہ کے راستے میں خرچ کرنے سے پیچھے رہتے ہیں حالانکہ وہ بین الاقوامی اور قومی وملکی سطح پر دیکھتے ہیں کہ ان پر کفار ظلم وستم کرتے ہیں، ان کی آبرو ریزیاں ہو رہی ہیں اور بستیوں کو لوٹا جا رہا ہے۔ ان حالات میں اگر یہ مظلومین
[1] الخلافۃ الراشدۃ، د/ یحیٰی الیحیٰی، ص: ۳۰۰ ۔ [2] فرائد الکلام، ص: ۱۹۰۔ بحوالۂ تاریخ الطبری۔