کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 295
(۴) سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کی علم، علماء اور مبلغین اسلام پر خصوصی توجہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا علم سے شغف: علم امت اسلامیہ کے غلبہ وقوت کا ایک اہم سبب ہے۔ یہ ناممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسی امت کو غلبہ وحکمرانی عطا کرے جو جاہل اور علم سے پیدل ہو۔ قرآنِ کریم کو بغور پڑھنے والا یہ بات واضح طور پر دیکھ سکتا ہے کہ اس میں علم کی عظمت اور حصول علم کی طرف رغبت دلانے والی آیات بھری پڑی ہیں۔ یہاں تک کہ قرآن کی سب سے پہلے نازل ہونے والی آیت کریمہ پڑھنے اور علم حاصل کرنے کا حکم دیتی ہے: اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ (العلق:۱) ’’پڑھو اپنے اس ربّ کے نام سے جس نے پیدا کیا۔‘‘ اسی طرح قرآن نے علم کو کفر کے مقابل میں ذکر کیا، جو مکمل جہالت اور گمراہی ہے۔ اللہ نے فرمایا: قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ (الزمر:۹) ’’آپ کہہ دیجیے کیا وہ لوگ جو علم والے ہیں اور وہ جو علم والے نہیں ہیں، برابر ہوسکتے ہیں؟ بے شک اہل عقل ودانش نصیحت پکڑنے والے ہوتے ہیں۔‘‘ اور علم ہی ایک ایسی چیز ہے جسے زیادہ سے زیادہ طلب کرنے کا اللہ اور اس کے رسول نے حکم دیا ہے۔ [1] فرمایا: وَقُلْ رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا (طٰہٰ: ۱۱۴) ’’اور کہیے اے میرے رب میرے علم میں زیادتی کردے۔‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جانتے تھے کہ شریعت کا علم، اور دین کی سمجھ تائید و نصرتِ الٰہی کا سبب ہے، اس لیے وہ لوگ دین کی سمجھ حاصل کرنے اور کتاب وسنت کی تعلیم سیکھنے کے حریص رہے، ان کے حصولِ علم میں خلوص و للہیت تھی، انہوں نے شرعی احکام کو دلائل کے ساتھ سیکھنا چاہا۔ انہیں یقین تھا کہ علم کے ساتھ عمل ضروری ہے، ورنہ اللہ تعالیٰ علم کی برکت چھین لے گا، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ دعا سیکھی تھی: ((اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُبِکَ مِنْ عِلْمٍ لَّا یَنْفَعُ ، وَمِنْ قَلْبٍ لَا یَخْشَعُ ، وَمِنْ نَّفْسٍ لَا
[1] شہید المحراب، ص: ۲۸۸ [2] شہید المحراب، ص: ۲۲۹ [3] فرائد الکلام، ص: ۱۴۰۔ بحوالہ: الداء والدواء، ابن القیم، ص: ۵۳