کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 293
پڑے یہاں تک کہ ہمارے سواری کے اونٹوں کے قریب تک پہنچے اور ایک ایک کو غور سے دیکھنے کے بعد فرماتے: کیا تم اپنی ان سواریوں کے بارے میں اللہ سے خوف نہیں کھاتے؟ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ان کا بھی تم پر حق ہے؟ انہیں کھلا کیوں نہ چھوڑ دیا کہ گھاس وغیرہ چرتے۔ [1] عمر رضی اللہ عنہ صدقہ کے اونٹوں کا علاج کرتے تھے: سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کے پاس گرمی کے موسم میں دوپہر کے وقت عراق سے ایک وفد آیا، اس میں احنف بن قیس بھی تھے۔ اور عمر رضی اللہ عنہ سر پر پگڑی باندھ کر صدقہ کے ایک اونٹ کو تارکول وغیرہ لگا رہے تھے۔ آپ نے فرمایا: اے احنف! اپنے کپڑے اتارو اور آؤ اس اونٹ میں امیر المومنین کی مدد کرو، یہ صدقہ کا اونٹ ہے، اس میں یتیم، بیوہ، اور مسکین کا حق ہے۔ وفد کے ایک آدمی نے کہا: اے امیر المومنین! اللہ آپ کی مغفرت کرے، آپ کسی خادم کو کیوں نہیں کہہ دیتے کہ وہ آپ کا یہ کام کردے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھ سے اور احنف سے بڑا خادم کون ہوسکتا ہے؟! جو شخص مسلمانوں کا حاکم ہو، اس پر خیر خواہی اور امانت کی ادائیگی کے سلسلہ میں مسلمانوں کے وہی حقوق لازم ہیں جو ایک غلام پر اس کے آقا کے لیے لازم ہوتے ہیں۔[2] عمر رضی اللہ عنہ کی خواہش پوری کرنے کے لیے تو نے ایک چوپائے کو عذاب دے دیا: ایک مرتبہ عمر رضی اللہ عنہ نے تازہ مچھلی کھانے کی خواہش ظاہر کی۔ آپ کے غلام ’’یرفا‘‘ نے مچھلی لانے میں چار دن لگا دئیے، دو دن جاتے ہوئے اور دو دن آتے ہوئے اور ایک ٹوکرا مچھلیاں خرید کر لایا۔ پھر ’’یرفا‘‘ سواری کے پاس کھڑے ہو کر اس کے جسم سے پسینہ صاف کرنے لگا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے سواری کو دیکھ کر فرمایا: عمر کی خواہش پوری کرنے کے لیے تو نے ایک جانور کو عذاب میں مبتلا کر ڈالا۔ اللہ کی قسم عمر! اس (مچھلی) کو چکھ نہیں سکتا۔[3] میں ڈرتا ہوں کہ کہیں تیرے بارے میں اللہ کے یہاں میری باز پرس نہ ہو: عمر رضی اللہ عنہ نے ایک اونٹ دیکھا جس پر بے بسی اور بیماری کے آثار بالکل نمایاں تھے۔ آپ اونٹ کے پاس پہنچے اور اپنا ہاتھ اونٹ کی دم کے پاس رکھ کر کریدنے اور دیکھنے لگے اور خود کو مخاطب کرکے کہنے لگے: میں ڈرتا ہوں کہ کہیں تیرے بارے میں اللہ کے یہاں میری باز پرس نہ ہو۔ [4] یہ ہیں سیرت فاروق کے چند یادگار نقوش، جو جانوروں سے آپ کی شدید شفقت ورحم دلی پر دلالت کرتے ہیں۔ کاش تہذیب حاضر سے مرعوب نوجوانانِ اسلام سیرت فاروق کا مطالعہ کرتے اور آپ کی اسلامی زندگی پر خصوصی توجہ دیتے، تو انہیں معلوم ہوجاتا کہ کوئی بھی انسانی قانون جو انسانی معاشرہ کے لیے فائدہ مند نظر آرہا ہے
[1] محض الصواب: ۱/ ۳۹۱ [2] شہید المحراب، ص: ۲۲۶ [3] محض الصواب: ۲/ ۴۶۹