کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 292
ابن الہادی کا کہنا ہے کہ بعض محققین نے کہا کہ یہ روایت اسی طرح واقع ہے، حالانکہ یہ غلط ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ اس لڑکی سے عاصم کی ایک بچی پیدا ہوئی اور پھر اس بچی سے عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی ولادت ہوئی۔ [1] خلاصہ بحث یہ کہ اس طرح عمر رضی اللہ عنہ بذاتِ خود رعایا کے احوال معلوم کرنے کی کوشش کرتے اور راتوں کو گشت لگاتے اور اللہ کی رضا جوئی اور ثواب کی خاطر رعایا کے حق میں اپنی ذمہ داریاں نبھاتے۔ قومی وملکی صورتِ حال سے واقفیت کا یہ جذبۂ خالص صرف دارالحکومت تک محدود نہ تھا، بلکہ آپ کی توجہ اور نگرانی کا دائرہ اسلامی مملکت کے چپے چپے تک وسیع تھا، جیسا کہ آپ عنقریب ان شاء اللہ آئندہ صفحات میں ملاحظہ کریں گے۔ ۵: جانوروں پر شفقت اور رحم دلی : جانوروں پر آپ کی شفقت اور رحم دلی صرف ایمان صادق کا نتیجہ تھی، وہ ایمان جو شفقت، مہربانی اور ہر چیز کے ساتھ احسان سے لبریز تھا۔ آپ کا دل ذکر الٰہی کی وجہ سے نرم ہوچکا تھا۔ آپ اللہ کی ہر مخلوق پر مہربان ورحم دل بن چکے تھے اور اسلامی تعلیمات کو سمجھ چکے تھے کہ ہر تر کلیجے یعنی زندہ جان پر شفقت کرنے میں اجر ہے۔ نیز یہ کہ کسی حیوان کو ناجائز جگہ استعمال کرنا، اس کا گلا گھونٹنا، غیر فطری عمل کے لیے اسے مجبور کرنا اور اس کی طاقت سے زیادہ اس پر بوجھ لادنا شرعاً جائز نہیں ہے۔ [2] آپ نے اعلان کردیا تھا کہ آپ اس خچر تک کے ذمہ دار ہیں جو راستہ خراب ہونے کی وجہ سے عراق میں پھسل کر گر گیا۔ اس مقام پر سیرت فاروق کے چند ایسے درخشاں ابواب کا ذکر کیا جا رہا ہے جو انسانی تاریخ کے حافظہ میں آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔ کیا اپنے اونٹ پر اتنا بوجھ لادتے ہو جسے اٹھانے کی وہ طاقت نہیں رکھتا؟ مسیب بن دارم سے روایت ہے کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ ایک ساربان (اونٹ کے مالک) کو مار رہے تھے اور کہہ رہے تھے: ’’تم نے اپنے اونٹ پر اتنا بوجھ لاد دیا ہے جسے اٹھانے کی وہ طاقت نہیں رکھتا۔‘‘ [3] کیا تم نہیں جانتے کہ اس کا بھي تم پر حق ہے؟ احنف بن قیس کا بیان ہے کہ ہم عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس ایک وفد کی شکل میں فتح عظیم کی خوش خبری لے کر آئے، آپ نے پوچھا: آپ لوگ کہاں ٹھہرے؟ میں نے کہا کہ فلاں جگہ۔ پھر آپ میرے ساتھ چل
[1] البدایۃ والنہایۃ: ۷/ ۱۴۰ [2] مناقب أمیر المومنین، ابن الجوزی، ص: ۸۹، ۹۰