کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 290
رأی ہناک أمیر المومنین علی حال تروع ۔ لعمر اللّٰه ۔ رائیہا ’’(دیکھنے والے نے) اس وقت امیر المومنین کو ایسی حالت میں دیکھا ہوگا جو اسے حیرت میں ڈال دے۔‘‘ یستقبل خوف النار فی عذہ والعین من خشیۃ اللّٰه سالت مآقیہا[1] ’’وہ کل جہنم کی آگ کے خوف سے دنیا کی آگ کا استقبال کر رہے تھے اور خوفِ الٰہی سے آنکھیں آنسو بہا رہی تھیں۔‘‘ اے امیر المومنین اپنے ساتھی کو لڑکے کی خوش خبری دیجیے: ایک رات عمر رضی اللہ عنہ گشت لگا رہے تھے، مدینہ کے ایک میدان میں پہنچے تو دیکھا کہ وہاں اونی خیمہ لگا ہوا ہے جو کل نہیں تھا۔ آپ اس کے قریب گئے تو اندر سے کراہنے کی آواز آئی، جب کہ باہر ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا۔ آپ اس کے قریب گئے اور سلام کیا، پھر پوچھا: تم کون ہو؟ اس نے کہا: میں ایک بدوی ہوں، امیر المومنین سے ملنے کے لیے آیا ہوں تاکہ ان کے احسان وکرم سے نوازا جاؤں۔ آپ نے پوچھا: میں گھر میں جو آواز سن رہا ہوں یہ کیسی آواز ہے؟ اس نے کہا: اللہ تم پر رحم کرے، تم کو اس سے کیا مطلب۔ آپ نے کہا: بتاؤ کیا بات ہے؟ اس نے بتایا: میری عورت درد زہ میں مبتلا ہے۔ آپ نے پوچھا: کیا اس کے پاس کوئی ہے؟ اس نے کہا: نہیں۔ آپ فوراً گھر آئے اور اپنی بیوی امّ کلثوم بنت علی سے کہا: کیا تم ثواب کمانا چاہتی ہو، اللہ نے اسے خود تم تک پہنچایا ہے؟ انہوں نے پوچھا: کیا بات ہے؟ آپ نے بتایا: ایک اجنبی عورت درد زہ میں مبتلا ہے اور اس کے پاس کوئی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا: اگر آپ راضی ہیں تو میں ضرور چلوں گی۔ آپ نے فرمایا: تو پھر بچے کی ولادت کے وقت کپڑے اور تیل وغیرہ کی جو ضرورت پڑتی ہے اسے لے لو اور ایک ہنڈیا، چربی اور تھوڑا سا غلہ بھی لے آؤ۔ امّ کلثوم سب کچھ لے کر آئیں۔ آپ نے کہا: چلو اب چلیں۔ آپ نے ہنڈیا اٹھائی اور وہ پیچھے پیچھے چلیں۔ جب آپ خیمہ کے پاس پہنچے تو امّ کلثوم سے کہا: عورت کے پاس جاؤ اور خود آکر آدمی کے پاس بیٹھ گئے، آپ نے اس سے کہا: آگ جلاؤ، اس نے آگ جلائی، ہنڈیا آگ کے اوپر رکھی یہاں تک کہ ہنڈیا گرم ہوگئی۔ اتنے میں عورت کو ولادت ہوگئی۔ تو آپ کی بیوی نے کہا: اے امیر المومنین اپنے ساتھی کو لڑکے کی خوش خبری دیجیے۔ جب بدوی نے امّ کلثوم کی زبان سے ’’امیر المومنین‘‘ کا لفظ سنا، تو جیسے ڈر گیا، اور تھوڑا تھوڑا آپ سے پیچھے ہٹنے لگا۔ آپ نے اس سے کہا: جیسے تھے اسی طرح اپنی جگہ بیٹھے رہو۔ پھر آپ ہانڈی اٹھا کر
[1] الکامل فی التاریخ: ۲/ ۲۱۴۔ الطبری: ۵/ ۲۰۰