کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 285
سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کا یہ عمل ہمیں سیاست عامہ میں آپ کی بالغ نظری اور مصلحت عامہ کو مقدم رکھنے میں آپ کی بے نظیر حکمت عملی کا پتا دیتا ہے۔ چنانچہ ایک طرف نصر کی خوب صورتی اور ان کا اپنے حسن وجمال کے بارے میں خصوصی اہتمام کرنا اور دوسری طرف مسلم مجاہدین کا اپنی بیوی سے لمبے عرصہ تک غائب رہنا، مزید برآں مدینہ کی پر امن وپرسکون فضا یہ ایسے اسباب تھے جو فتنہ میں واقع ہونے کا سبب بن سکتے تھے۔ لہٰذا اس موقع پر یہی زیادہ مناسب تھا کہ اس ناز و ادا والے نوجوان کو کسی فوجی شہر میں بھیج دیا جائے تاکہ جنگی مہارت حاصل کرے، یا بہادری کے کارناموں اور لوگوں کی ہمت وجوان مردی کو دیکھ کر فائدہ اٹھائے۔ چنانچہ بصرہ ہی اس وقت فوجی چھاؤنی والا شہر تھا اور وہی شہر اس نوجوان کے علاج کے لیے زیادہ مناسب ٹھہرا۔ [1] بہرحال جس عورت کے کلام کو عمر رضی اللہ عنہ نے سنا تھا وہ اس تفصیل کو جان کر خوفزدہ ہوئی کہ کہیں آپ جلد بازی میں کوئی نامناسب اقدام نہ کرجائیں، اس لیے کہ اس نے آپ کے پاس چپکے سے چند اشعار پر مشتمل ایک خط بھیجا، وہ اشعار یہ ہیں: قل للإمام الذی تخشی بوادرہ مالی وللخمر أو نصر بن حجاج ’’اس امام کو معلوم ہونا چاہیے کہ جس کی گرفت کی عجلت کا خوف ہے، میرا شراب اور نصر بن حجاج سے کیا تعلق؟‘‘ إنی عنیت أبا حفص بغیرہما شرب الحلیب وطرف فاتر ساجی ’’اے ابوحفص میں نے شعر میں ان دونوں کو نہیں مراد لیا ہے بلکہ دودھ کا پینا اور پرسکون آنکھ مراد لیا۔‘‘ إن الہوی زمہ التقوی فقیّدہ حتی اقرّ بالجام وإسراج ’’خواہشات نفس کو تقویٰ نے باندھ دیا ہے، اور اسے قید کردیا ہے، یہاں تک کہ اسے خوب کس دیا ہے لگام اور زین سے۔‘‘ لا تعجل الظن حقًا لا تُبینہ إن السبیل سبیل الخائف الراجي ’’گمان کو بلا تحقیق حق سمجھنے میں آپ جلدی نہ کریں اللہ سے خوف وامید رکھنے والے کے راستے پر گامزن ہوں۔‘‘
[1] أولیات الفاروق، ص: ۲۸۹ [2] أولیات الفاروق، ص: ۱۷۰ [3] مناقب أمیر المومنین، ابن الجوزی، ص: ۹۱