کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 278
عمر رضی اللہ عنہ نے خرید وفروخت میں تاجروں کے لیے حلال وحرام کی معرفت لازم کردی: عمر فاروق رضی اللہ عنہ ایسے آدمی کو درّے لگاتے تھے جو بازار میں تجارت کرنے آتا اور لین دین کے متعلق شرعی احکامات نہ جانتاہوتا اور اسے کہتے: جو شخص سود کو نہ پہچانتا ہو وہ ہمارے بازار میں نہ بیٹھے۔ [1] آپ بازار کا چکر لگاتے اور بعض تاجروں کو یہ کہتے ہوئے درّے لگاتے کہ ہمارے بازار میں وہی بیچے جو تجارت کا شرعی علم رکھتا ہو، ورنہ وہ دانستہ یا غیر دانستہ طور پر سود کھا لے گا۔ [2] خلاصہ یہ کہ عمر رضی اللہ عنہ کی نگاہ میں حکومت کے تمام تر معاملات اہمیت و اہتمام کے حامل تھے، کسی گوشہ کا دوسرے گوشہ پر ظلم نہیں ہوتا تھا اور نہ حاکم وقت کے دیکھتے ہوئے کسی صورت حال میں بگاڑ پیدا ہوسکتا تھا، وہ حاکم تجارت کے ایسے قوانین اور اصول بناتے جو بازاروں کے مناسب اور ان کے مفاد میں ہوتے، لین دین کو منظم کرتے اور بھروسا واطمینان کے ضامن ہوتے۔ ان اصولوں کی تنفیذ کے بعد نہ غبن ہوتا نہ دھوکا اور نہ کوئی احتکار اور بلیک مارکیٹنگ ہوتی نہ تجارت کی دنیا میں جواز وعدم جواز سے کسی کو ناواقفیت ہوتی۔ مختصر مگر جامع قرارداد صادر ہوتی جو تمام تر مفاسد کا استیصال اور ہر چیز کو منظم کردیتی۔ یہ ہے فرمان فاروقی کہ جو تجارت کے شرعی اصولوں کو نہ سمجھتا ہو وہ ہمارے بازار میں تجارت نہ کرے۔ [3] سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان آج کے ان قوانین سے ملتا جلتا ہے جس میں کہا جاتا ہے کہ جس شخص کے پاس فلاں علم کی فلاں سند (ڈگری) نہ ہو وہ فلاں کام نہیں کرسکتا۔ [4] موجودہ دور کے ممالک بھی بازاروں کو منظم کرنے اور ان کی نگرانی کی طرف توجہ دیتے ہیں اور ایوانِ تجارت (چیمبر آف کامرس) یا اس کے قائم مقام دوسرے شعبے، بازار میں جن اصلاحات کی ضرورت ہوتی ہے اور جس میں جمہور کا فائدہ ہوتا ہے ان کی اصلاح ورہنمائی اور ضابطہ بندی کا کام کرتے ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ اس معاملہ میں سب پر سبقت لے گئے اور اس کا سہرا آپ کے سر ہے، بازاروں کو بے ہنگم نہیں چھوڑا، بلکہ ان پر نگران متعین کیے، جو غلطیوں کی تاک میں لگے رہتے، تجارت کو منظم کرتے اور اسلامی تجارتی اصولوں کی محافظت کرتے۔ چنانچہ جس طرح سائب بن یزید کو عبداللہ بن عتبہ بن مسعود کے ساتھ مدینہ طیبہ کے بازار کا نگران بنا دیا تھا اسی طرح سلیمان بن ابی حثمہ کو کئی بازاروں کا نگران بنا دیا، اس طرح تمام بازاروں کا ایک صدر نگران ہوتا تھا اور ہر بازار کا ایک الگ نگران ہوتا جو صدر کی ماتحتی میں کام کرتا، اور یہ ایک قطعی فائدے کی بات ہے کہ لوگوں کی راحت رسانی میں تنظیم وتیسیر کے لیے بازاروں کی طرف خصوصی توجہ کا بہت بڑا دخل ہے اور قطعی طور پر ایک بڑا فائدہ یہ
[1] موسوعۃ فقہ عمر، قلعجی، ص: ۲۸ [2] موسوعۃ فقہ عمر، قلعجی، ص: ۲۹ [3] موسوعۃ فقہ عمر بن الخطاب، قلعجی، ص: ۲۹ [4] تاریخ المدینۃ المنورۃ: ۲/ ۷۴۹۔ موسوعۃ فقہ عمر، ص: ۱۷۷