کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 269
بعد میں نے وضو سے زیادہ کچھ نہیں کیا (اور سیدھا مسجد میں آیا ہوں۔) عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ابھی صرف وضو کیا ہے؟ حالانکہ تم جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن غسل کا حکم دیتے تھے۔ [1] آپ مسجد میں شور وہنگامہ کرنے سے منع کرتے تھے، سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں مسجد میں کھڑا تھا، پیچھے سے مجھے کسی آدمی نے کنکری ماری میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تھے۔ آپ نے فرمایا: جاؤ اور ان دونوں کو پکڑ لاؤ، میں دونوں کو پکڑ کر آپ کے پاس لایا، آپ نے کہا: تم لوگ کون ہو، یا تم کہاں کے رہنے والے ہو؟ انہوں نے بتایا کہ ہم طائف کے رہنے والے ہیں۔ آپ نے فرمایا: اگر تم اس شہر کے ہوتے تو تم دونوں کو سخت سزا دیتا۔ تم دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں شور کرتے ہو۔ [2] عمرفاروق رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توجیہات ورہنمائیوں کا بہت احترام کرتے تھے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( اِذَا اسْتَأْذَنَتِ مْرَأَۃُ اَحَدِکُمْ اِلَی الْمَسْجِدِ فَلَا یَمْنَعْہَا۔)) ’’تم میں سے کسی سے اس کی عورت مسجد میں آنے کی اجازت مانگے تو اسے نہ روکو۔‘‘ راوی کا کہنا ہے کہ عمر بن خطاب کی بیوی مسجد میں نماز پڑھنے جاتی تھیں، ایک مرتبہ عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: تم تو جانتی ہی ہو کہ مجھے کیا پسند ہے (یعنی گھر میں نماز پڑھ لیا کرو۔) بیوی نے جواب دیا: میں اس وقت تک باز نہیں آؤں گی جب تک کہ آپ مجھے اس سے روک نہ دیں گے۔ راوی کہتے ہیں یہ سن کر عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو چونکا لگایا، حالانکہ وہ مسجد ہی میں تھیں۔ [3] یہ روایت بتاتی ہے کہ امیر المومنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ شرعی امور کی کس قدرتعظیم کرتے تھے اور کتاب وسنت کے کتنے پابند تھے، آپ دیکھ رہے ہیں کہ اپنی ذاتی پسند پر فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو کس طرح مقدم رکھا۔ [4] آپکی شان عبادت دیکھیے کہ آدھی رات کو نماز پڑھنا آپ کا محبوب ترین مشغلہ تھا، اللہ کی مشیت کے مطابق جتنی توفیق ملتی نماز پڑھتے رہتے، اور جب رات کا آخری وقت آتا تو اپنی بیوی کو بیدار کرتے اور کہتے: ’’نماز، نماز‘‘، اور اس آیت کی تلاوت فرماتے: وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا لَا نَسْأَلُكَ رِزْقًا نَحْنُ نَرْزُقُكَ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَى (طہ: ۱۳۲) [5]
[1] حلیۃ الاولیاء: ۱/ ۵۲ [2] الفتاوٰی: ۱۰/ ۳۷۴ [3] الفتاوٰی: ۱۸/ ۱۵۴ [4] الفتاوٰی: ۲۳/ ۶۲ [5] الفتاوٰی: ۲۱/ ۹۱ [6] التاریخ الاسلامی، الحمیدی: ۱۹، ۲۰/ ۴۲ [7] الفتاوٰی : (۲۱/ ۹۸) ( ۳۲/ ۲۳)