کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 267
تمام تر ظاہری ومعنوی شکلوں سے نبرد آزما رہے، اور بدعتوں کا قلع قمع کرتے رہے، جب کہ ساتھ ہی ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کی مکمل پیروی بھی کرتے رہے۔ پس یہ اصول زمین میں حکمرانی کا ایک اہم سبب اور ذریعہ ہے جسے عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سمجھ لیا تھا اور اس کی روشنی میں لوگوں کے درمیان زندگی گزارتے رہے۔ ۲: عبادات کا اہتمام : عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کتاب وسنت کے عمیق مطالعہ سے یہ سمجھ لیا تھا کہ عبادات کی انجام دہی کا نام ہی دین اسلام ہے، پورا دین عبادت میں داخل ہے اور دین حقیقت میں اللہ کا بتایا ہوا وہ نظام ہے جو زندگی کے تمام گوشوں کو محیط ہے اور خور و نوش نیز قضائے حاجت کے آداب وغیرہ سے لے کر اسلامی حکومت کے قیام، اس کی تدبیر وسیاست، آمد و خرچ کی تنظیم، معاملات اور جرم و سزا سے متعلق امور نیز صلح وجنگ کی حالت میں بین الاقوامی تعلقات تک کے مسائل کو شامل ہے، اسی لیے آپ انہیں منظم کیے رہے اور یہ کہ نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج وغیرہ اللہ کی اہم ترین عبادتوں کی نشانیاں ہیں، ان کی اپنی اہمیت اور مقام ومرتبہ ہے۔ لیکن ساری عبادات صرف انہی شعائر میں محدود نہیں ہیں بلکہ عبادات کا ایک حصہ ہیں جو اللہ کو مطلوب ہیں۔ [1] عبادت کے اسی مفہوم کو انسانوں کی زندگی میں نافذ کرنا ہی زمین کی حکمرانی پانے کے لیے اوّلین شرط ہے۔ اسی طرح آپ کو معلوم تھا کہ انسانوں کے عقائد میں پختگی لانے، اخلاقیات کی بلندیوں میں استحکام بخشنے اور معاشرہ کی اصلاح میں عبادات کی اہم تاثیر ہے، چنانچہ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور ذکر واذکار جیسے اسلامی شعائر کا عمر رضی اللہ عنہ نے کتنا اور کس طرح اہتمام کیا اور اپنی ذات اور اسلامی معاشرہ میں عبادات کی اہمیت ومعنویت کو کس طرح نافذ کیا اس کی چند مثالیں دی جا رہی ہیں: صلوٰۃ (نماز): نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کو نماز پڑھنے کا حکم دیتے تھے، جماعت سے پیچھے رہ جانے والوں کو خوب ڈانٹ پلاتے اور نماز چھوڑنے والوں پر سخت گرفت کرتے تھے۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی آپ کے طریقے پر چلتے رہے، اور جب عمر فاروق رضی اللہ عنہ منصب خلافت پر فائز ہوئے تو نماز کے معاملے میں سختی کی، لوگوں کو نماز کی تاکید کی، اور اسے چھوڑنے والوں کو سزائیں دیں۔ اپنے گورنروں کے پاس یہ عمومی فرمان بھیجا کہ ’’میرے نزدیک تمہارا سب سے اہم کام نماز ہے، جس نے خود اس کی پابندی کی اور دوسروں سے کروائی، اس نے اپنا دین محفوظ کرلیا، اور جس نے نماز ضائع کردی وہ دوسری چیزوں کو بدرجہ اولیٰ ضائع کرنے والا ہوگا۔‘‘ [2]
[1] مناقب عمر، ابن الجوزی، ص: ۲۳۔ یہ روایت منقطع ہے، لیکن دیگر متعدد طرق سے اس کی تقویت ہوتی ہے۔ [2] دونوں مونڈھوں کو ہلاتے ہوئے دلکی چال کو رمل کہتے ہیں ، جو طواف قدوم کے ابتدائی تین چکروں میں کیا جاتا ہے۔ [3] محض الصواب: ۲/ ۵۳۲ [4] محض الصواب: ۲/ ۵۳۲ [5] شیبہ بن عثمان بن ابی طلحہ القرشی العبدری کعبہ کے دربان تھے۔ [6] محض الصواب: ۲/ ۵۳۷ [7] أشہر مشاہیر الاسلام، رفیق العظم: ۲/ ۲۵۶۔ ۲۵۷