کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 264
کا اتباع ضروری ہے۔ [1] بیعت رضوان والے درخت کو کاٹنا: ابن سعد صحیح سند کے ساتھ نافع سے روایت کرتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ کو خبر ملی کہ کچھ لوگ اس درخت کے پاس آتے ہیں جس کے نیچے بیعت رضوان ہوئی تھی اور اس کے پاس نماز پڑھتے ہیں، آپ نے ان کی گرفت کی اور آئندہ کے لیے متنبہ کیا، اور درخت کو کاٹنے کا حکم دے دیا، چنانچہ وہ کاٹ دیا گیا۔ [2] یہ ہے توحید کی حفاظت اور فتنوں کے ذرائع کے صفایا کے لیے فاروقی اقدام کہ جب تابعین نے ثواب کی غرض سے ایسا کام شروع کردیا جسے صحابہ رضی اللہ عنہم نے نہیں کیا تھا تو وہ عمل بدعت ٹھہرا اور یہی چیز بعد میں درخت کی عبادت کا سبب بن جاتی تو عمر رضی اللہ عنہ کے حکم سے اسے کاٹ ہی دیا گیا۔ [3] دانیال علیہ السلام کی قبر: جب ’’تُسْتَرْ‘‘ میں دانیال علیہ السلام کی قبر ملی تو اس کے بارے میں ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس خط لکھا، سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے جواباً تحریر کیا کہ دن میں تیرہ (۱۳) قبریں کھدواؤ اور رات میں ان قبروں میں سے کسی ایک میں ان کی لاش دفن کردو اور ان کی قبر میں خوب مٹی ڈال دینا تاکہ لوگ اس سے فتنہ میں نہ پڑ جائیں۔ [4] کیا تم اپنے انبیاء کے آثار کو سجدہ گاہ بنانا چاہتے ہو؟ صحیح سند سے عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ آپ سفر پر تھے، آپ نے (راستہ میں) دیکھا کہ کچھ لوگ ایک ہی جگہ پر باری باری نماز پڑھ رہے ہیں۔ آپ نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ لوگوں نے کہا: اس جگہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی تھی۔ آپ نے فرمایا: تم سے پہلی امتیں اسی وجہ سے ہلاک ہوئیں کہ انہوں نے اپنے انبیاء کے آثار کو سجدہ گاہ بنا لیا۔ اگر کسی کی نماز کا وقت یہاں ہوجائے تو پڑھ لے ورنہ آگے بڑھ جائے۔ [5] میں لوگوں کو یہ بتانا چاہتا تھا کہ اصل کار ساز اللّٰہ ہی ہے: شام کی عین محاذ آرائی کے وقت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو مسلم فوج کی قیادت سے برطرف کرنے کا مقصد امت مسلمہ کی خیر ومصلحت کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ عمر فاروق رضی اللہ عنہ خالد رضی اللہ عنہ کے ساتھ لوگوں کی بے انتہا عقیدت دیکھ کر ڈر گئے کہ مبادا لوگوں کا یہ عقیدہ نہ ہوجائے کہ اسلامی فتوحات کی کامیابی خالدبن ولید رضی اللہ عنہ کی برکت اور ان کی
[1] البدایۃ والنہایۃ: ۷/ ۱۰۲، ۱۰۳۔علی طنطاوی کا کہنا ہے کہ اس واقعہ کی شہرت کی وجہ سے ہم اسے بیان کرتے ہیں ورنہ ہمیں اس کی صحت کا علم نہیں ۔ یہ روایت ضعیف ہے، ثابت نہیں ہے۔ (مترجم) [2] فن الحکم، ص: ۳۴۷ [3] صحیح البخاری، حدیث نمبر: ۱۵۹۷ [4] أصحاب الرسول: ۱/ ۱۶۱ [5] فتح الباری: ۳/ ۵۹۰، ۵۹۱