کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 262
۱: توحید کی حفاظت وپاسبانی اور بدعات وضلالت کے خلاف جنگ : چوں کہ اسلامی ممالک کے قیام کا اصل مقصد دین کی حفاظت ہے، اس لیے عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے اسی مقصد کی تکمیل پرزور دیا، وہ یہ کہ لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے صاف اور صحیح عقیدہ کا پابند کرکے دین کی اصلیت کی حفاظت کی جائے۔ آپ نے گمراہوں کے شکوک وشبہات کا قلع قمع کیا اور دشمنان دین اسلام جو شیطان کی طرف سے مزین کیے ہوئے منحرف عقائد اور بدعات وخرافات کو رواج دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ بہت اچھا کررہے ہیں ان کی چالوں کو ناکام بنایا۔ ہم آپ کے سامنے چند ایسے واقعات ذکر کرتے ہیں جو توحید کی حفاظت اور بدعات وضلالت سے معرکہ آرائی کی مثال ہیں۔ دریائے نیل کی دلہن: عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس مصریوں کی ایک (جاہلانہ) ورسم کی اطلاع بھیجی، وہ یہ کہ مصری لوگ ہر سال دریائے نیل کو ایک بچی کی قربانی دیتے ہیں اور مجھ سے کہتے ہیں کہ اے امیر دریائے نیل کا یہی طریقہ ہے، یہ اس عمل کے بغیر نہیں بہے گا۔ عمرو بن عاص نے ان سے پوچھا: اس کی کیا شکل ہے؟ انہوں نے بتایا کہ جب اس مہینہ کے پورا ہونے میں بارہ (۱۲) دن باقی رہ جاتے ہیں تو ہم ایک کنواری بچی کو اس کے والدین سے مانگتے ہیں اور اس کے والدین کو راضی کرلیتے ہیں، پھر اس بچی کو بہتر سے بہتر زیور اور کپڑے پہناتے ہیں اور اسے لا کر اس دریا میں ڈال دیتے ہیں۔ عمرو رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ تو ایسا کام ہے کہ اسلام میں اس کی اجازت نہیں مل سکتی، اسلام تو اپنے سے پہلے کے غلط عقائد کو مٹا دیتا ہے، چنانچہ کچھ سالوں تک ان لوگوں نے وہ کام نہیں کیا تو نیل کا بہاؤ بھی رک گیا اور پانی اپنی جگہ پر بالکل ٹھہر گیا، ان لوگوں نے پھر وہی عمل دہرانا چاہا۔ تو عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس اس سلسلہ میں خط لکھا، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اس کا جواب یہ دیا کہ تم نے جو کیا ہے وہ صحیح ہے، میں اپنے اس خط کے لفافے کے ساتھ کاغذ کا ایک ٹکڑا بھیج رہا ہوں، اسے تم دریائے نیل میں ڈال دینا۔ جب عمر رضی اللہ عنہ کا خط پہنچا تو عمرو رضی اللہ عنہ نے اس ٹکڑے کو پڑھنا شروع کیا، اس میں تحریر تھا: ’’اللہ کے بندے عمر امیر المومنین کی طرف سے مصریوں کے دریائے نیل کے نام! حمد وصلاۃ کے بعد! اگر تو آج سے پہلے اپنی مرضی اور اپنے اختیار سے بہتا تھا تو مت رواں ہو، ہمیں تیری کوئی ضرورت نہیں ہے اور اگر تو اللہ واحد وقہار کی مرضی اور اس کے حکم سے بہتا تھا … اور حقیقت میں وہی تجھ کو رواں کرتا ہے … تو ہم اللہ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ تجھے رواں کردے۔‘‘ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ وہ ٹکڑا دریائے نیل میں ڈال دیا گیا اور جب ہفتے کی صبح لوگ وہاں پہنچے
[1] أحکام القرآن: ۳/ ۲۴۶ [2] الحسبۃ فی العصر الراشدی، د/ فضل إلٰہی، ص: ۱۵ [3] الحسبۃ فی الإسلام، ص:۶۔ السلطۃ التنفیذیۃ: ۱/ ۳۰۹