کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 259
مِنَ اللّٰهِ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ (2) غَافِرِ الذَّنْبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِيدِ الْعِقَابِ ذِي الطَّوْلِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ إِلَيْهِ الْمَصِيرُ (3) (غافر: ۱۔۳) ’’حٓمٓ۔اس کتاب کا اتارنا اللہ کی طرف سے ہے، جو سب پر غالب ، ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ گناہ بخشنے والا اور توبہ قبول کرنے والا، بہت سخت سزا والا، بڑے فضل والا، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ ‘‘ پھر آپ نے خط لکھوانا بند کردیا اور اپنے قاصد سے کہا: تم اس آدمی کو یہ خط ایسی حالت میں دینا جب کہ وہ مکمل ہوش میں ہو، پھر جو لوگ آپ کے ساتھ تھے ان سے کہا کہ اس آدمی کے لیے دعا کرو کہ اسے توبہ کی توفیق مل جائے۔ چنانچہ جب اس آدمی کے پاس خط پہنچا تو وہ اسے پڑھتا اور کہتا: میرے ربّ نے مجھ سے میری بخشش کا وعدہ کیا ہے، اور اپنی سزا سے مجھے ڈرایا ہے۔ یہ کہہ کر بار بار اسے دہراتا رہا، یہاں تک کہ رونے لگا۔ پھر شراب نوشی چھوڑ دی، اور اچھی طرح چھوڑی۔ اس کی توبہ اچھی رہی۔ جب عمر رضی اللہ عنہ کو اس کی خبر ملی تو فرمایا: اسی طرح کیا کرو، جب تم دیکھو کہ تم میں سے کوئی بھٹک گیا تو اسے سیدھے راستے پر لانے کی کوشش کرو اور اس کے لیے دعا کرو اور اس کے خلاف شیطان کے مددگار نہ بن جاؤ۔ [1] اس واقعہ سے نفس کی تربیت، لوگوں کی طبیعت شناسی اور درستی کے وسائل و طریقہ کار کے بارے میں عمر رضی اللہ عنہ کی ظرف نگاہی بالکل صاف نظر آرہی ہے۔ تاہم یہ ممکن ہے کہ جو چیز کسی کے لیے مفید ہو وہ دوسرے کے لیے نقصان دہ ثابت ہوجائے۔ لہٰذا یہ فاروقی مؤقف کامیاب تربیت کے اسباق میں سے ایک اہم سبق اور اصلاح ورہنمائی کا ایک مثالی اسلوب ہے۔ یہ امیر المومنین ہیں کہ اپنی بے پناہ مشغولیات اور بے شمار ذمہ داریوں کے باوجود اپنی مجلس میں آنے والے ایک عام فرد کو غائب دیکھتے ہیں تو آپ اسے نظر انداز نہیں کرتے بلکہ اس کے بارے میں دریافت کرتے ہیں۔ تاکہ اس کا علاج کرایا جائے اور وہ صحت مند ہوجائے۔ جب کہ آج کے دور میں حقیقی بھائی غائب ہوتا ہے اور دوسرے کو اس کی غیر حاضری کا احساس تک نہیں ہوتا۔ اگر احساس ہوتا ہے تو وہ غائب ہونے کی وجہ نہیں پوچھتا۔ اگر اسے علاج کی ضرورت پڑ جائے تو اس کے لیے بھاگ دوڑ نہیں کرتا۔ درحقیقت یہ بے توجہی اسلامی اخوت کو ڈھا دینے کا ایک طرزِ عمل ہے، جو مسلمان اخوت وبھائی چارگی کو پہچانتے ہیں ان کا یہ طریقہ کبھی نہیں رہا، پس کیا کوئی ہے جو اس پر توجہ دے؟ شاید اور ممکن ہے کہ … ! [2] مخصوص مجالس کے بارے میں عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی رائے: اجتماعات سے متعلق سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ یہ چاہتے تھے کہ لوگوں کی مجالس عام ہوں تاکہ اس میں ہر طبقہ
[1] الخلیفہ الفاروق، د/ عبدالرحمن العانی، ص: ۱۲۴ [2] مناقب عمر أمیر المومنین، ص: ۲۰۰ [3] الخلیفۃ فاروق، ص: ۱۲۴۔ بحوالۂ الریاض النضرۃ [4] الخلیفۃ فاروق، ص: ۱۲۵