کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 257
پاس درّہ ہوتا تھا۔ اگر آپ کسی آدمی کو مسلسل دو دن گوشت خریدتے دیکھتے تو اسے درّے لگاتے، اور کہتے: کیا تم اپنے شکم کو اپنے پڑوسی اور چچا زاد بھائی کے لیے سمیٹ نہیں سکتے۔ [1] اب تمہیں جو مانگنا ہو مانگو: عمر رضی اللہ عنہ نے ایک بھکاری کو مانگتے ہوئے دیکھا، جب کہ اس کی پیٹھ پر کھانے سے بھرا ہوا تھیلا تھا۔ آپ نے اس سے کھانا چھین لیا اور اسے صدقہ کے اونٹوں کے آگے ڈال دیا، پھر کہا: اب تمہیں جو مانگنا ہو مانگو۔ [2] یہ چال چھوڑ دو: ایک آدمی ہاتھوں کو ہلاتے ہوئے اور پاؤں کو پٹختے ہوئے متکبرانہ چال میں عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: یہ چال چھوڑ دو، اس نے کہا: میں ایسا نہیں کر پاؤں گا۔ آپ نے اسے کوڑے لگائے، لیکن اس نے پھر غرور وتکبر کا مظاہرہ کیا۔ آپ نے اسے پھر کوڑے لگائے، اس بار اس نے متکبرانہ چال چھوڑ دی۔ اس موقع پر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر اس قسم کی حرکتوں پر میں کوڑے نہیں ماروں گا تو اور کس چیز پر ماروں گا؟ کچھ دنوں بعد وہ آدمی آپ کے پاس آیا اور کہا: ’’جَزَاکَ اللّٰہُ خَیْرًا‘‘ اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔ اس وقت شیطان ہی تھا (جس نے مجھے گمراہ کیا تھا) اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذریعہ سے اسے مجھ سے بھگا دیا۔ [3] ہمارے دین کا گلا نہ گھونٹو: ایک مرتبہ عمر رضی اللہ عنہ نے ایک ایسے آدمی کو دیکھا جو عبادت کررہا تھا اور بہ تکلف اپنی کمزوری ظاہر کررہا تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے سر پر درّہ مارا اور کہا: تم مرجاؤ، لیکن ہمارے دین کا گلا نہ گھونٹو۔ [4] شفاء بنت عبداللہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، فرمایا کہ میں نے کچھ نوجوانوں کو دیکھا جو بہت دھیمی رفتار سے چل رہے تھے، اور ٹھہر ٹھہر کر باتیں کررہے تھے۔ (زاہد مرتاض تھے) آپ نے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ لوگوں نے بتایا: عباد وزہاد۔ انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! عمر رضی اللہ عنہ جب بات کرتے تو اسے سناتے، جب چلتے تو جلدی کرتے اور جب مارتے تو تکلیف دہ مار مارتے، حالانکہ واللہ وہ حقیقی عابد وزاہد تھے۔ [5] رعایا کی صحت وتندرستی پر آپ کی خصوصی توجہ: خلیفہ راشد عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے رعایا کی صحت وتندرستی پر خصوصی توجہ کی، آپ لوگوں کو موٹاپے کے نقصانات اور اس کی ہلاکت خیزیوں سے آگاہ کرتے تھے، انہیں جسمانی تخفیف پر ابھارتے تھے۔ کیونکہ بدن
[1] اخبار عمر، ص: ۳۲۱۔ مناقب أمیر المومنین، ابن الجوزی، ص: ۱۲۸ [2] تاریخ المدینۃ المنورۃ، ابن شبۃ: ۲/۶۹۰۔ الدور السیاسی، صفوۃ، ص: ۱۹۱ [3] تاریخ المدینۃ المنورۃ، ابن شبۃ: ۲/۶۹۰۔ الدور السیاسی، صفوۃ، ص: ۱۹۱