کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 256
عمر دُرّہ لے کر موقع پر آئے، دیکھا تو ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے پتھر گاڑ رکھے ہیں۔ آپ نے فرمایا: اس کو اکھاڑو، انہوں نے اسے اکھاڑ دیا، پھر آپ نے کہا: اس کو اکھاڑو، اور اس کو اکھاڑو۔ یہاں تک کہ کئی پتھروں کو بلکہ تقریباً پانچ یا چھ پتھروں کو اکھڑوا دیا۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ کعبہ کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: شکر ہے اس اللہ کا جس نے عمر کو اس لائق بنایا کہ ابوسفیان کو مکہ میں حکم دے اور وہ عمر کی اطاعت کرے۔ [1] عیینہ بن حصن اور مالک بن ابی زفر: ایک مرتبہ عیینہ بن حصن نے عمر رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی، آپ کے پاس ایک محتاج مسلمان مالک بن ابی زفر موجود تھے، عیینہ نے ان پر طنز کرتے ہوئے کہا: کمزور لوگ طاقتور ہوگئے، اور پست لوگ بلند ہوگئے۔ مالک نے کہا: کیا یہ ہمارے اوپر گلی سڑی ہڈیوں اور جہنم رسید جانوں کے ذریعہ سے فخر کرتا ہے۔ جب عیینہ نے مالک کے ان جوابی کلمات پر اعتراض کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ غضب ناک ہوگئے، اور کہا: اب تم اسلام میں ذلیل ہو کر زندہ رہو، اللہ کی قسم! میں تم سے اس وقت تک خوش نہیں ہوسکتا جب تک کہ مالک تمہارے بارے میں سفارش نہ کردیں۔ چنانچہ عیینہ کے لیے ضروری ہوگیا کہ عمر رضی اللہ عنہ کے پاس مالک سے سفارش کروائیں۔ [2] جارود اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہما : ایک مرتبہ جارود رضی اللہ عنہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو ایک آدمی نے کہا: یہ قبیلہ ربیعہ کے سردار ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے ان پر درّہ اٹھایا اور کہا: میں ڈر گیا کہ کہیں تمہارے دل میں کوئی (غرور) نہ شامل ہوجائے۔ آپ نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے ساتھ بالکل ایسا ہی کیا، آپ نے جب دیکھا کہ مسجد سے نکلنے کے بعد لوگ ان کے پاس بھیڑ لگا دیتے ہیں، اور فتویٰ پوچھتے ہیں، تو کہا: تمہارا یہ عمل تمہارے لیے فتنہ اور معتقدین وپیروکاروں کے لیے باعث ذلت ہوسکتا ہے۔ [3] ۵: معاشرہ میں بعض بے جا تصرفات پر پابندی: عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی زندگی اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت کی آئینہ دار تھی، اسی وجہ سے آپ کسی بھی غلط کردار یا بے جا تصرفات جس سے اسلامی معاشرہ میں برائیاں پیدا ہوں، انہیں قطعاً برداشت نہ کرتے تھے۔ اس باب میں آپ ایسے واقعات ملاحظہ کریں گے جس میں عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بعض غلطی کرنے والوں کو سیدھے راستے پر لگا دیا: زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کی قربان گاہ: سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ زبیر بن عوام کے ذبیحہ خانہ آتے تھے، اس وقت مدینہ میں وہی ایک ذبیحہ خانہ تھا، آپ کے
[1] تاریخ الذہبی، عہد الخلفاء الراشدین، ص: ۲۷۲ [2] مکاتبہ کا مطلب ہے کہ غلام اپنے مالک سے معاہدہ کرلے کہ میں اتنی رقم جمع کرکے ادا کردوں گا تو آزادی کا مستحق ہو جاؤں گا۔ (مترجم) [3] محض الصواب: ۳/ ۹۷۵ [4] شہید المحراب، ص: ۲۲۲