کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 253
ایک مرتبہ علی، عثمان، طلحہ، زبیر، عبدالرحمن، اور سعد رضی اللہ عنہم اکٹھے ہوئے، ان میں عمر رضی اللہ عنہ سے سب سے زیادہ بے خوف عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ تھے۔ ان لوگوں نے کہا: اے عبدالرحمن! اگر لوگوں کے بارے میں تم ہی عمر رضی اللہ عنہ سے بات کرلیتے تو اچھا ہوتا، وہ یہ کہ آپ کے پاس ضرورت مند لوگ آتے ہیں، لیکن آپ کی ہیبت کی وجہ سے آپ سے کچھ کہہ نہیں پاتے، وہ لوٹ جاتے ہیں اور ان کی ضرورت پوری نہیں ہوتی۔ عبدالرحمن رضی اللہ عنہ آپ کے پاس گئے اور اس سلسلے میں آپ سے بات کی۔ آپ نے فرمایا: اے عبدالرحمن میں تمہیں اللہ کی قسم دلا کر پوچھتا ہوں: کیا علی، عثمان، طلحہ، زبیر اور سعد یا ان میں سے دو ایک نے تمہیں مجھ سے یہ کہنے کے لیے مامور کیا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ آپ نے فرمایا: اے عبدالرحمن، میں لوگوں کے لیے نرم ہوا، اتنا نرم ہوا کہ میں اللہ سے ڈر گیا (کہ کہیں لوگ میری نرمی سے ناجائز فائدہ نہ اٹھا لیں) پھر میں نے ان پر سختی کی، اتنی سختی کی کہ اللہ سے ڈر گیا (کہ کہیں لوگ مجھے اپنی ضرورت نہ بتا سکیں) تمہی بتاؤ، اب میں کیا کروں؟ یہ سن کر عبدالرحمن رضی اللہ عنہ روتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے اور آپ کی ازار گھسٹ رہی تھی اور آپ اپنے ہاتھوں سے اشارہ کرتے ہوئے کہہ رہے تھے: افسوس ہے ان پر، آپ کے بعد کیا ہوگا، افسوس ہے ان پر، آپ کے بعد کیا ہوگا؟ [1] عمرو بن مرۃ [2] سے روایت ہے، فرمایا: قریش کا ایک آدمی سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ملا اور کہا: ہمارے لیے نرم ہوجایئے، ہمارے دل آپ کے رعب سے بھر گئے ہیں۔ آپ نے پوچھا: کیا اس میں ظلم ہے؟ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ میرا رعب تمہارے دلوں میں اور بڑھ جائے۔ [3] عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں عمر رضی اللہ عنہ سے ایک آیت کی تفسیر پوچھنے کے لیے پورے ایک سال تک سوچتا رہا لیکن آپ کے رعب کی وجہ سے اسے نہ پوچھ سکا۔ [4] ابن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام عکرمہ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ایک حجام آپ کے بال تراش رہا تھا۔ آپ کافی بارعب تھے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے گلا صاف کرنے کے لیے کھنکھارا تو خوف کی وجہ سے حجام کی ہوا خارج ہوگئی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اسے چالیس درہم دینے کا حکم دیا۔ [5] جب عمر رضی اللہ عنہ لوگوں کے دلوں میں اپنا رعب ودبدبہ دیکھتے تو کہتے: اے اللہ تو جانتا ہے کہ لوگ جتنا مجھ سے ڈرتے ہیں میں اس سے کہیں زیادہ تجھ سے خوف کھاتا ہوں۔[6]
[1] المرتضٰی، ابوالحسن علی الحسنی الندوی، ص: ۱۰۷۔ اردو طبع، ص: ۱۶۶ واقعہ کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: کتاب الخراج، ابویوسف، ص: ۸۷ … مترجم [2] المرتضٰی، ابوالحسن علی الحسنی الندوی، ص: ۱۰۷۔ اردو طبع میں دیکھیے، ص: ۱۶۷ … مترجم ۔ [3] مناقب عمر، ص: ۱۳۵۔ مراسیل الحسن، محض الصواب: ۱/ ۲۷۳