کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 252
تھی، اور وہ ہر دل عزیز تھے، عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو معزول کرنے کا فیصلہ نافذ کردیا، اور یہ حکم اس وقت پہنچا جب مسلمان رومیوں کے مقابلہ میں جنگ یرموک کے میدان میں صف آرا تھے اور ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو قیادت کی ذمہ داری سونپی گئی، یہ ایسا نازک وقت تھا کہ اچھے اچھوں کے قدم ڈگمگا سکتے تھے اور نفس امّارہ بلکہ فطری خود داری بھی اپنا رنگ دکھا سکتی تھی، لیکن عمر رضی اللہ عنہ کا رعب وجلال اور خالد رضی اللہ عنہ کی قوت ایمانی تھی کہ حکم پاتے ہی ان کی زبان سے نکلا: ’’سمعا وطاعۃ لأمیر المومنین‘‘ ’’امیر المومنین کا حکم سر آنکھوں پر‘‘ اور جب ان سے کہا گیا کہ ایسے نازک موقع پر یہ عظیم تبدیلی لشکر اسلام اور مسلمانوں میں انتشار کی موجب ہوسکتی ہے تو انہوں نے فرمایا کہ ’’جب تک عمر موجود ہیں کسی فتنہ کی گنجائش نہیں ہے۔‘‘ [1] خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا امیر المومنین کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کرنا جب کہ وہ ایک مقبول عام، صاحب اقبال فاتح وسپہ سالار تھے اور ان کا اس طرح عاجزی کے ساتھ سپہ سالاری کے عہدہ سے اتر کر معمولی سپاہی بن جانا ایک ایسا واقعہ ہے جس کی دنیا کی جنگی اور فوج کی سپہ سالاری کی تاریخ میں مثال ملنا مشکل ہے۔ اس کے ساتھ وہ عمر رضی اللہ عنہ کے دبدبہ کی بھی دلیل ہے اور یہ کہ ان کو کس درجہ تمام امور سلطنت اور فوج پر قابو تھا۔ [2] لوگوں کے دلوں میں آپ کی کافی جلالت وعظمت تھی، حسن بصری رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو خبر ملی کہ ایک (بدچلن) عورت ہے، جس کے بارے میں لوگ باتیں کر رہے ہیں، آپ نے اسے بلا بھیجا، آپ با رعب آدمی تھے ہی، جب اس عورت کے پاس آپ کا فرستادہ پہنچا تو اس نے (اپنے دل میں) کہا: اب تیری بربادی ہے، عمر کو تیری کیا ضرورت پڑ گئی ہے؟ وہ جانے کے لیے نکلی ہی تھی کہ راستے میں (عمر رضی اللہ عنہ کے خوف سے) درد زہ ہوگیا۔ ادھر سے کچھ عورتیں گزریں، جنہوں نے اس کی حالت کو سمجھ لیا، اس عورت کو بچہ پیدا ہوا، وہ ایک بار رویا اور پھر مر گیا۔ عمر رضی اللہ عنہ کویہ خبر پہنچی تو آپ نے مہاجرین وانصار کو اکٹھا کیا اور ان سے مشورہ لیا، سب نے مشورہ دیا کہ اے امیر المومنین! آپ کا کیا قصور آپ نے اس کی تادیب کے لیے اس کو بلایا تھا اور آپ حاکم وقت ہیں آپ کو یہ حق حاصل ہے۔ آپ نے سب سے پیچھے بیٹھے ہوئے آدمی سے پوچھا: اے فلاں تم کیا کہتے ہو؟ اس نے کہا: امیر المومنین! میرا کہنا یہ ہے کہ اگر ان لوگوں نے آپ کا لحاظ کیا ہے تو واللہ انہوں نے آپ کی خیر خواہی نہیں کی، اور اگر یہی ان کی صوابدید ہے تو ان کی رائے غلط ہے۔ فرمایا: ’’آپ کی وجہ سے یہ صورتِ حال پیدا ہوئی ہے، لہٰذا دیّت لازم ہے۔‘‘ حسن بصری رحمہ اللہ سے دریافت کیا گیا، یہ صاحب کون تھے؟ فرمایا: علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ۔ [3]
[1] عمر بن الخطاب، صالح عبدالرحمن، ص: ۷۹ [2] الشیخان بروایت بلاذری، ص: ۲۱۹ [3] المرتضٰی للندوی، ص: ۱۰۶۔ نوٹ: یہ حوالہ غلط ہے، میں نے اصل کتاب کا مراجعہ کیا لیکن اس میں یہ واقعہ کہیں نہ ملا۔ (مترجم)