کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 247
مقدار کے، ان کی ماں بقید حیات ہوں گی، وہ ان کے ساتھ حسن سلوک کریں گے۔ وہ اگر کسی چیز کی قسم کھائیں گے تو اللہ اسے پورا کرے گا، اگر تم ان سے استغفار کروا سکو گے تو کروا لینا۔‘‘ وہ آدمی جب واپس لوٹ کر اویس کے پاس گیا تو کہا: میرے لیے دعائے مغفرت کردیجیے۔ آپ نے کہا: تم ابھی نیک سفر سے آئے ہو اس لیے تم میرے لیے دعائے مغفرت کرو۔ اس نے کہا: پہلے آپ میرے لیے دعائے مغفرت کریں۔ اویس نے پوچھا: کیا عمر رضی اللہ عنہ سے تمہاری ملاقات ہوئی ہے۔ اس نے کہا: ہاں۔ اویس نے کہا: تو پہلے ان کے لیے استغفار کرو۔ راوی کا کہنا ہے: اس وقت لوگ آپ کے مقام ومرتبہ کو جان سکے، پھر وہ وہاں سے چلے گئے۔ [1] عمر رضی اللہ عنہ اور ایک مجاہد جس نے اپنی ماں کے ساتھ حسن سلوک کیا: شام سے مجاہدین کی ایک جماعت آئی، وہ یمن جا رہی تھی۔ عمر رضی اللہ عنہ کے پاس کچھ پلیٹیں تھیں کہ صبح کی نماز پڑھتے تو انہیں دستر خوان پر لگا دیتے۔ (حسب عادت آپ نے دستر خوان لگایا) اتنے میں مجاہدین میں سے ایک شخص آیا اور بیٹھ کر کھانے لگا، وہ بائیں ہاتھ سے کھا رہا تھا، عمر رضی اللہ عنہ کھانے کے وقت لوگوں پر نگاہ رکھتے تھے، آپ نے اسے دیکھ کر فرمایا: داہنے ہاتھ سے کھاؤ۔ لیکن اس نے بات نہ مانی۔ آپ نے اس سے دوبارہ کہا ، تو اس نے کہا: اے امیر المومنین میرا ہاتھ مشغول ہے۔ جب وہ شخص کھانے سے فارغ ہوا تو آپ نے اسے بلایا اور کہا: تمہارے داہنے ہاتھ کو کیا مشغولیت تھی، اس نے اپنا ہاتھ نکالا، وہ ہاتھ کٹا ہوا تھا۔ آپ نے پوچھا: یہ کیا؟ اس نے کہا: جنگ یرموک کے موقع پر میرا ہاتھ شہید ہوگیا تھا۔ آپ نے پوچھا: پھر تمہیں وضو کون کراتا ہے۔ اس نے کہا: میں اپنے بائیں ہاتھ سے وضو کرلیتا ہوں اور اللہ میرا ساتھ دیتا ہے۔ آپ نے پوچھا: کہاں جانے کا ارادہ رکھتے ہو؟ اس نے کہا: یمن، اپنی ماں کے دیدار کے لیے جا رہا ہوں۔ میں نے ان کو ایک زمانے سے نہیں دیکھا ہے۔ ان کے ساتھ حسن سلوک اور نیکیاں کرلوں۔ آپ نے اسے ایک خادم اور صدقہ کے پانچ اونٹ دینے کا حکم دیا، اور اس کے ساتھ انہیں روانہ کردیا۔ [2] ایک آدمی کو دورانِ جہاد ایسا کاری زخم لگا کہ اس کے چہرے میں گڑھا ہوگیا: ایک مرتبہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے سامنے لوگ اپنے عطیات لے رہے تھے، اچانک آپ کی نگاہ ایک ایسے آدمی پر پڑی جس کے چہرے پر کاری زخم کا نشان تھا۔ آپ نے اس سے اس کی وجہ پوچھی، اس نے آپ کو بتایا کہ فلاں غزوہ میں مجھے یہ زخم آیا ہے۔ آپ نے فرمایا: اسے ایک ہزار درہم دے دو، اسے ایک ہزار درہم دئیے گئے، پھر آپ نے فرمایا: مزید ایک ہزار دے دو، اسے دوبارہ ایک ہزار درہم دئیے گئے، پھر آپ نے فرمایا: مزید ایک