کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 241
ایک عورت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس اپنے شوہر کی شکایت لے کر آتی ہے: سیّدناعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس ایک عورت آئی اور کہا: اے امیر المومنین! میرے شوہر میں برائیاں زیادہ اور اچھائیاں کم ہوگئی ہیں۔ آپ نے پوچھا: تمہارا شوہر کون ہے؟ اس نے بتایا: ابوسلمہ، نام سنتے ہی عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں پہچان لیا، وہ صحابی رسول تھے۔ بہرحال آپ نے عورت سے کہا: ہم تمہارے شوہر کے بارے میں یہی جانتے ہیں کہ وہ اچھے آدمی ہیں، اور پھر اپنے پاس بیٹھے ہوئے ایک آدمی سے آپ نے کہا: تم کیا کہتے ہو؟ اس نے کہا: ہم بھی ان کے بارے میں یہی جانتے ہیں۔ چنانچہ آپ نے اس کے شوہر کو بلا بھیجا اور عورت کو حکم دیا کہ میرے پیچھے بیٹھ جاؤ۔ اتنے میں بلانے والا اس کے شوہر کو لے کر حاضر ہوا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا: کیا تم اس عورت کو پہچانتے ہو۔ انہوں نے کہا: اے امیر المومنین! یہ کون عورت ہے؟ آپ نے بتایا کہ یہ تمہاری بیوی ہے۔ ابوسلمہ نے پوچھا کہ یہ کیا کہتی ہے؟ آپ نے بتایا کہ یہ کہہ رہی ہے: ’’تمہاری برائیاں زیادہ اور اچھائیاں کم ہوگئی ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا: اے امیر المومنین یہ غلط کہہ رہی ہے، اللہ کی قسم! اس کے پاس بہت زیادہ کپڑے اور بہت زیادہ گھریلو سامان ہے، البتہ مجھ میں قوت جماع کم ہوگئی ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے عورت سے پوچھا: تم کیا کہتی ہو؟ اس نے کہا: یہ سچ کہہ رہے ہیں۔ آپ نے دُرّہ اٹھایا اور عورت کی طرف یہ کہتے ہوئے بڑھے: ’’اے اپنے نفس کی دشمن! تو نے اس کی جوانی کو قتل کردیا، اس کا مال کھا لیا، پھر اس پر ایسی تہمت لگاتی ہے جو اس میں نہیں ہے۔‘‘ اس نے کہا: اے امیر المومنین، اس بار مجھے چھوڑ دیجیے، اللہ کی قسم!آپ دوبارہ کبھی مجھے اس جگہ پر نہیں پائیں گے۔ آپ نے اسے تین کپڑے منگوا کر دئیے اور کہا: اللہ سے خوف کھاؤ اور ان بزرگ کے ساتھ اچھی طرح رہو، پھر ابوسلمہ کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے کہا: آپ نے مجھے جو کچھ کرتے ہوئے ابھی دیکھا ہے اس کی وجہ سے آپ اس پر ناراض نہ ہونا بلکہ اس کے ساتھ حسن صحبت کا معاملہ کرنا۔ انہوں نے کہا: ٹھیک ہے اے امیر المومنین، میں ایسا ہی کروں گا۔ راوی کا بیان ہے گویا کہ میں اس عورت کو کپڑے لے کر جاتے ہوئے دیکھ رہا ہوں، پھر میں نے عمر رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: (( خَیْرُ اُمَّتِی الْقَرْنُ الَّذِیْ أَنا فِیْہِ ، ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہٗ ، ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہٗ ، ثُمَّ یَجِیْئُ قَوْمٌ تَسْبِقُ شَہَادَتُہُمْ اَیْمَانُہُمْ ، یَشْہَدُوْنَ قَبْلَ اَنْ یُّسْتَشْہَدُوْا لَہُمْ فِیْ اَسْوَاقِہِمْ لَغَطٌ۔)) [1] ’’میری امت کی بہترین صدی وہ ہے جس میں میں ہوں، پھر اس کے بعد والی صدی، اور پھر جو اس کے بعد ہے۔ پھر ایسے لوگ آئیں گے کہ ان کی گواہیاں ان کی قسموں پر مقدم ہوں گی، گواہی مانگنے
[1] شہید المحراب، ص: ۲۰۴ [2] شہید المحراب، ص: ۲۰۵ [3] عیون الاخبار: ۴/ ۱۱۔ فرائد الکلام، ص:۱۴۱ [4] اخبار عمر، ص:۱۹۰۔ بحوالۂ الریاض النضرۃ