کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 239
المومنین! آپ نے اسے بہت کچھ دے دیا؟ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تمہارا برا ہو، میں نے اس خاتون کے باپ اور بھائی کو اس وقت دیکھا ہے جب کہ ایک مدت تک دونوں ایک قلعہ کا محاصرہ کیے ہوئے تھے، پھر ہم نے اسے فتح کیا تھا، پھر ہم صبح کو ان دونوں کا حصہ مال فے سے وصول کررہے تھے۔ [1] یہ واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ جس شخص نے بھی اسلام کے لیے کچھ قربانی دی، خواہ وہ کم سن ہی کیوں نہ ہو، اس کے ساتھ آپ نے وفاداری کا ثبوت دیا، ہائے افسوس! آج کا دور ایسا ہے کہ جس میں اکثر لوگ وفاداری سے تہی دامن ہیں، ہمیں اس اصول وفاداری کو زندہ کرنے کی کتنی سخت ضرورت ہے۔ [2] ام کلثوم بنت صدیق کو شادی کا پیغام دینا: سیّدناعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے، آپ ان کے ذریعہ سے ان کی چھوٹی بہن امّ کلثوم کو شادی کا پیغام دینا چاہتے تھے، سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس سلسلہ میں اپنی بہن سے بات کی، تو انہوں نے جواب دیا: میں اس کے لیے راضی نہیں ہوں۔ عائشہ نے کہا: تم امیر المومنین سے شادی کرنے سے انکار کرتی ہو؟ انہوں نے کہا: ہاں، وہ خشک زندگی گزارتے ہیں اور عورتوں پر سختی کرتے ہیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو صورت حال کی اطلاع دی۔ انہوں نے کہا: اے ام المومنین! آپ گھبرائیں نہیں، میں اس معاملہ میں آپ کی مدد کروں گا۔ پھر وہ عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور کہا: اے امیر المومنین! مجھے ایک ناپسندیدہ خبر ملی ہے، میں آپ کے سلسلے میں اس سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔ آپ نے پوچھا: وہ کیا؟ انہوں نے جواب دیا: کیا آپ نے امّ کلثوم بنت ابوبکر کو پیغام نکاح بھیجا تھا؟ آپ نے کہا: ہاں، کیا تم نے مجھے اس کے لائق نہیں سمجھا یا اسے میرے لائق نہیں سمجھا؟ انہوں نے کہا: ایسی کوئی بات نہیں ہے، بلکہ وہ کم عمر ہے اور عائشہ رضی اللہ عنہا کی گود میں بہت ناز ونعم سے تربیت پائی ہے، اور آپ کی طبیعت میں سختی ہے۔ جب ہم لوگ آپ سے ڈرتے ہیں اور آپ کو آپ کی کسی عادت سے پھیر نہیں سکتے، تو بھلا اس کا کیا حال ہوگا۔ اگر اس نے آپ کے مزاج کے خلاف کچھ کردیا تو آپ اس پر چڑھ دوڑیں گے؟ اور اس طرح ابوبکر کی اولاد کے بارے میں آپ بلاوجہ حق تلفی کا شکار ہوجائیں گے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: پھر میں عائشہ رضی اللہ عنہا کو کیا جواب دوں؟ میں نے ان سے اس سلسلہ میں بات کرلی تھی؟ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے کہا: اے امیر المومنین! میں آپ کی طرف سے عائشہ رضی اللہ عنہا سے بات کرلوں گا۔ [3] دوسری روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ عمرو بن عاص نے کہا: اے امیر المومنین اگر آپ کسی عورت سے شادی کرلیتے تو اچھا ہوتا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: عنقریب تمہاری آنکھوں کے سامنے ایسا ہی ہوگا۔ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے
[1] أ محض الصواب: ۳/ ۷۷۷۔ یہ روایت سنداً ضعیف ہے، کیونکہ قتادہ اور عمر رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے۔ [2] الرد علی الجہمیۃ، الدارمی، ص: ۴۵ [3] أ العلو للعلی الغفار، ذہبی، ص: ۶۳ [4] آپ قبیلہ بنو غفار کے امام وخطیب تھے، حدیبیہ میں شریک ہوئے اور خلافت عمر میں وفات ہوئی۔