کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 235
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس کے بیٹے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک اتنے محبوب اور محترم تھے کہ انہیں بزرگ ترین بدری صحابہ رضی اللہ عنہم کی مجلس میں شرکت کا موقع دیتے تھے، جب کہ عمر رضی اللہ عنہ کے دوسرے کئی بیٹے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے ہم عمر تھے۔ لیکن وہ اس اعزاز سے نہیں نوازے گئے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی نگاہ میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا بڑا بلند مقام تھا۔ صحیح بخاری میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ مجھے بزرگ ترین بدری صحابہ کی مجلس میں شرکت کا موقع دیتے تھے، مجلس کے کسی صحابی نے کہا: آپ اس نوجوان کو ہماری مجلس میں کیوں لاتے ہیں، حالانکہ ہمارے لڑکے اسی کے ہم عمر ہیں لیکن ہم انہیں مجلس میں نہیں لاتے؟ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم جانتے ہو کہ اس کا تعلق کس خاندان سے ہے؟ ایک دن آپ نے ان لوگوں کو بلایا اور مجھے بھی بلایا، میں سمجھ گیا کہ آپ نے ان لوگوں کو صرف میری اہمیت دکھانے کے لیے بلایا تھا، آپ نے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے بارے میں آپ لوگ کیا کہتے ہیں: إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَالْفَتْحُ (1) وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللّٰهِ أَفْوَاجًا (2) فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا (3) (النصر:۱۔۳) ’’جب اللہ کی مدد اور فتح آجائے ۔اور تو لوگوں کو دیکھے کہ وہ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہو رہے ہیں۔ تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کر اور اس سے بخشش مانگ، یقینا وہ ہمیشہ سے بہت توبہ قبول کرنے والا ہے۔‘‘ ان میں سے کچھ لوگوں نے کہا کہ ہم اس کا مطلب نہیں جانتے، اور کچھ لوگ خاموش رہے، پھر آپ نے مجھ سے پوچھا: اے ابن عباس! کیا تمہاری بھی یہی رائے ہے؟ میں نے کہا: نہیں۔ آپ نے کہا: تم کیا کہتے ہو؟ میں نے کہا: اس سورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر دی گئی ہے کہ جب اللہ کی مدد آجائے اور مکہ فتح ہوجائے تو یہ آپ کی وفات کی علامت ہے۔ لہٰذا تم اپنے ربّ کی حمد وتسبیح کرو اور اس سے مغفرت مانگو، وہ بہت توبہ قبول کرنے والا ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس کے متعلق میں بھی وہی جانتا تھا جو تم جانتے ہو۔ [1] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام بغوی [2] نے معجم الصحابہ میں زید بن اسلم کی سند سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ ، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو اپنے پاس بلاتے اوراپنے پہلومیں بٹھاتے اور کہتے: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے ایک دن تمہیں بلایا، تمہارے سر پر ہاتھ پھیرا اور یہ دعا دی: (( اَللّٰہُمَّ فَقِّہْہُ فِی الدِّیْنِ وَعَلِّمْہُ التَّاْوِیْلَ۔)) [3]
[1] مسلم، حدیث نمبر: ۱۷۵۸ [2] العقیدۃ فی أہل البیت بین الإفراط والتفریط، ص: ۲۱۵ ۔