کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 232
معاملات اور اہم مسائل میں علی رضی اللہ عنہ عمر رضی اللہ عنہ کے پہلے مشیر ہوتے تھے اور علی رضی اللہ عنہ عمر رضی اللہ عنہ کو جو مشورہ دیتے آپ انشراح صدر کے ساتھ اسے نافذ کرتے۔ مذکورہ صداقت کی دلیل کے لیے عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول کافی ہے کہ ’’اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا۔‘‘ علی رضی اللہ عنہ عمر رضی اللہ عنہ کے تمام احوال ومعاملات میں نہایت مخلصانہ خیر خواہی کا جذبہ رکھتے تھے۔ آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ جب عمر رضی اللہ عنہ نے اہل فارس سے معرکہ آرائی کے لیے خود کو سپہ سالار فوج بنانا چاہا تو علی رضی اللہ عنہ سے اس سلسلہ میں مشورہ لیا، اس وقت آپ نے عمر رضی اللہ عنہ کو نہایت دوستانہ اور مخلصانہ مشورہ دیا کہ وہ خود تشریف نہ لے جائیں، بلکہ دوسرے لوگوں کے ذریعے سے جنگ کی کارروائی مدینہ میں رہتے ہوئے چلائیں، عمر رضی اللہ عنہ سے مزید کہا کہ اگر آپ (مدینہ چھوڑ کر) معرکہ آرائی کے لیے خود سپہ سالار بن کر جاتے ہیں تو خطرہ ہے کہ کہیں اندر خلفشار برپا نہ ہوجائے اور یہ نقصان اس دشمن سے کہیں زیادہ خطرناک ہوگا جس سے مقابلہ کے لیے جا رہے ہیں۔‘‘ ذرا غور کیجیے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا اعلان کیا ہوتا کہ میرے بعد علی رضی اللہ عنہ امت محمدیہ کے خلیفہ ہوں گے، تو کیا علی رضی اللہ عنہ کو یہ مجاز حاصل تھا کہ اس فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے انکار کرجاتے؟ اور جن لوگوں نے آپ کا حق چھین لیا تھا بلکہ واجبی منصب خلافت کو ہڑپ لیا تھا، اس خالص تعمیری تعاون کے ذریعہ سے ان کی تائید کرتے؟ صرف علی رضی اللہ عنہ ہی نہیں بلکہ کیا تمام صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین علی رضی اللہ عنہ کے استحقاق خلافت سے متعلق فرمان نبوی کو نظر انداز کرجاتے؟ کیا یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ وہ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اجماع کرلیں اور ان میں پیش پیش علی رضی اللہ عنہ بھی ہوں؟ آگے آپ لکھتے ہیں: ’’صورت حال کو سمائے رکھتے ہوئے ہم صاف صاف سمجھ سکتے ہیں کہ تمام مسلمان خلافت فاروقی کے آخر دور تک، بلکہ یوں کہیے کہ خلافت علی کے آخری دور تک ایک ہی جماعت تھے۔ خلافت، یا استحقاق خلافت کے بارے میں ان میں کسی بھی مسلمان کے ذہن میں کبھی کوئی بات نہیں آئی۔‘‘ [1] بنو نضیر سے حاصل ہونے والے مال فے کے بارے میں عباس وعلی رضی اللہ عنہما کا باہمی نزاع: مالک بن اوس کا بیان ہے کہ میں ٹھیک دوپہر کے وقت اپنے گھر والوں کے ساتھ بیٹھا تھا، اس وقت عمر رضی اللہ عنہ کا فرستادہ میرے پاس آیا اور کہا: آپ کو امیر المومنین نے بلایا ہے، میں اس کے ساتھ چل پڑا، یہاں تک کہ عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، دیکھا تو آپ کھجور کی رسی کی بنی ہوئی چارپائی کے سرہانے بیٹھے ہوئے تھے، چارپائی پر کوئی بستر وغیرہ نہ تھا۔ چمڑے کے تکیہ پر ٹیک لگائے تھے، میں سلام کرکے آپ کے پاس بیٹھ گیا۔ آپ نے کہا: اے مالک! میرے پاس تمہاری قوم کے کئی گھرانوں کے لوگ آئے ہیں، میں نے انہیں کچھ مال دینے کا حکم دیا ہے۔ لہٰذا تم مال لے کر ان میں تقسیم کردو۔ میں نے کہا: اے امیر المومنین! اگر آپ میری جگہ دوسرے کو اس کے لیے مکلف کرتے تو بہتر ہوتا۔ آپ نے کہا: اے اللہ کے بندے، اسے لو اور تقسیم کرو۔ ابھی میں آپ کے پاس بیٹھا ہوا تھا
[1] المرتضٰی، ابوالحسن علی حسنی ندوی، ص: ۱۱۹ [2] المرتضٰی، ابوالحسن علی حسنی ندوی، ص: ۱۱۹ [3] البدایۃ والنہایۃ، ابن کثیر: ۷/ ۳۳۱، ۳۳۲ [4] ی المرتضٰی، علی حسنی ندوی، ص: ۱۱۹ [5] علی بن أبی طالب مستشار أمین الخلفاء الراشدین، محمد الحاجی، ص: ۹۹ [6] علی بن ابی طالب مستشار أمین الخلفاء الراشدین، محمد الحاجی، ص: ۱۳۸