کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 230
کرتے اور مل لیا کرتے، ان کے کہنے کی بنا پر میں ایک روز وہاں گیا، اس وقت آپ معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تنہائی میں ان سے باتیں کررہے تھے اور ابن عمر رضی اللہ عنہما دروازے پر تھے، ان کو اندر آنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ یہ دیکھ کر میں واپس آگیا۔ پھر ایک دن عمر رضی اللہ عنہ کا سامنا ہوا تو انہوں نے فرمایا: بیٹے تم میرے پاس نہیں آئے؟ میں نے کہا: میں آیا تھا مگر آپ معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تخلیہ میں تھے، میں نے دیکھا کہ ابن عمر واپس لوٹ گئے تو میں بھی لوٹ آیا۔ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تم عبداللہ بن عمر سے زیادہ اجازت پانے کے مستحق ہو، ہمارے دل ودماغ میں ایمان کی جو تخم ریزی ہوئی ہے وہ اللہ کا احسان ہے، پھر تمہارے گھرانے کا فیض ہے، یہ کہہ کر میرے سر پر اپنا ہاتھ رکھا۔ [1] ابن سعد جعفر الصادق عن محمد الباقر کے واسطے سے علی بن حسین سے روایت کرتے ہیں، فرمایا: عمر رضی اللہ عنہ کے پاس یمن کے حلے (جوڑے) آئے، آپ نے لوگوں میں تقسیم کر دیے، وہ سب یہ نئے کپڑے پہن کر مسجد نبوی میں آئے، عمر رضی اللہ عنہ منبر رسول اور قبر نبوی کے درمیان بیٹھے تھے، لوگ آتے، سلام کرتے اور ان کو دعائیں دیتے، اتنے میں حضرات حسن اور حسین رضی اللہ عنہما اپنی والدہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے مکان سے نکلے، لوگوں کے درمیان سے گزر رہے تھے اور ان صاحبزادوں کے جسم پر وہ حلے نہیں تھے، عمر رضی اللہ عنہ افسردہ اور اداس بیٹھے ہوئے تھے، لوگوں نے پوچھا: کیا بات ہے؟ فرمایا: میں ان بچوں کی وجہ سے مغموم ہوں کہ ان کے بدن کے مطابق کوئی حلہ نہ تھا، چادریں بڑی تھیں اور ان کے قد چھوٹے ہیں۔ اس کے بعد یمن پیغام بھیجا کہ دو جوڑے حسن اور حسین کے لیے بہ عجلت بھیجے جائیں، چنانچہ وہ بھیجے گئے۔ آپ نے ان دونوں کو پہنائے تب اطمینان ہوا۔[2] ابوجعفر سے روایت ہے کہ جب اللہ نے فتوحات کے دروازے کھول دئیے تو عمر رضی اللہ عنہ نے ہر ایک کے لیے ایک حصہ ماہانہ یا روزینہ کی شکل میں مقرر کرنے کا ارادہ کیا، لیکن کس کو کتنا دیا جائے؟ ترتیب کیا ہو؟ اس کے لیے کبار صحابہ کو جمع کیا اور ان کی آراء معلوم کیں، عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ اپنی ذات سے شروع کیجیے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’لَا، وَاللّٰہِ، اس سے شروع کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ قریب ہوگا اور بنو ہاشم کے حصے مقرر کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قبیلہ ہے۔‘‘ چنانچہ انہوں نے عباس رضی اللہ عنہ کا اور پھر علی رضی اللہ عنہ کا حصہ نکالا، یہاں تک کہ پانچ قبائل کے درمیان ترتیب قائم کی اور اخیر میں بنی عدی بن کعب تک پہنچے، ترتیب یوں رکھی گئی کہ بنو ہاشم میں جو لوگ بدر میں شریک تھے، پھر بنو امیہ بن عبد شمس میں جو لوگ بدر میں شریک تھے ان
[1] طبقات ابن سعد، ابن سعد: ۸/ ۱۰۹۔ یہ خبر سنداً درجہ حسن تک پہنچتی ہے۔ أخبار عمر، ص: ۱۰۰ [2] طبقات ابن سعد، ابن سعد: ۳/ ۳۰۳ یہ خبر سنداً صحیح ہے۔ [3] الإدارۃ فی عہد عمر بن الخطاب، ص: ۱۲۶۔ فتح الباری: ۴/ ۴۷