کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 229
جب اسے لے کر جانے والا زینب رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچا تو انہوں نے کہا: اللہ تعالیٰ عمر کو بخشے، میری دوسری بہنیں اسے لینے کی مجھ سے زیادہ مستحق تھیں، لے جانے والوں نے کہا: یہ سب آپ کا ہے۔ پھر آپ نے سبحان اللہ کہا اور پردے کی آڑ میں ہوگئیں اور کہا اسے یہیں رکھ دو اور اس پر پردہ ڈال دو۔ پھر زینب رضی اللہ عنہا نے برزہ بنت رافع سے کہا: اس میں ہاتھ ڈال کر مٹھی بھر نکالو اور پھر آپ نے چند قریبی رشتہ داروں اور یتیموں کا نام لے کر بتایا کہ فلاں فلاں کو دے دو۔ برزہ نے اسے تقسیم کردیا، یہاں تک کہ کپڑے کے نیچے تھوڑا سا بچا۔ برزہ نے کہا: امّ المومنین! اللہ تعالیٰ آپ کو بخشے، ہمارا بھی اس میں حق تھا، انہوں نے کہا: تمہارا حصہ اس کپڑے کے نیچے ہے، پھر ہم نے کپڑا ہٹایا تو اس کے نیچے ہمیں صرف پچاسی (۸۵) درہم ملے، ام المومنین زینب رضی اللہ عنہا نے آسمان کی طرف ہاتھ بلند کیے اور کہا: اے اللہ، اس سال کے بعد ہمیں عمر کا عطیہ تقسیم کرنے کے لیے نہ ملے۔ پھر آپ رضی اللہ عنہا کی وفات ہوگئی اور ازواج مطہرات میں سب سے پہلے آپ وفات پانے والی تھیں۔ [1] ازواجِ مطہرات کی شان میں فاروقی اکرام واعزاز کی بابت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہمارے پاس ذبیحہ میں سے ہمارا حصہ بھیجتے تھے، حتیٰ کہ سر اور پائے میں سے بھی۔[2] ازواج مطہرات نے عمر رضی اللہ عنہ سے حج کرنے کی اجازت مانگی، آپ نے اجازت دینے سے انکار کردیا، انہوں نے آپ سے بہت اصرار کیا، تو آپ نے فرمایا: آپ لوگوں کو آئندہ سال اجازت دوں گا اور یہ تنہا میری رائے نہیں ہے۔ چنانچہ آپ نے اگلے سال انہیں عثمان بن عفان اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما کی نگرانی میں حج کے لیے بھیجا اور دونوں کو حکم دیا کہ ایک ازواج مطہرات کے آگے اور ایک ان کے پیچھے رہے، ان کے ساتھ ساتھ کوئی نہ چلے۔ پھر جب یہ مکہ پہنچ جائیں تو باب شعب ابی طالب کی جانب سے حرم میں لے جانا، تم دونوں دروازے پر رہنا، کوئی دوسرا ان کے پاس ہرگز نہ جاسکے اور جب وہ طواف کریں تو ان کے ساتھ صرف عورتیں طواف کریں۔ [3] سیّدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد: جیسا کہ پیچھے گزر چکا ہے کہ جناب عمر رضی اللہ عنہ خاندان نبوی کے افراد کو بہت عزت دیتے تھے اور انہیں اپنی اولاد حتیٰ کہ خاندان والوں پر ترجیح دیتے تھے، چنانچہ اس موضوع سے متعلق آپ کے چند واقعات یہاں مذکور ہیں: سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ مجھ سے ایک روز عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: بیٹے! کاش تم ہمارے پاس آیا
[1] فن الحکم، ص: ۷۴ [2] صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ، حدیث نمبر: ۲۴۰۸ [3] العقیدۃ فی أہل البیت بین الإفراط والتفریط، ص: ۵۹ [4] الزہد، إمام أحمد بن حنبل، ص: ۱۶۶۔ بروایت مالک، اس کی سند صحیح ہے۔