کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 226
عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو آپ نے ہدیہ روک لینے کا حکم دیا اور ’’اَلصَّلَاۃُ جَامِعَۃٌ‘‘ کی ندا لگوائی۔ چنانچہ لوگ اکٹھے ہوئے، آپ نے انہیں دو رکعت نماز پڑھائی اور کہا: جو کام بغیر مشورہ کے کیا جائے اس میں بھلائی نہیں ہے۔ آپ لوگ بتائیں کہ امّ کلثوم نے ملکہ روم کو جو ہدیہ دیا تھا (اس کے بدلے اسے ہدیہ آیا ہے) اس سلسلہ میں میں کیا کروں؟ کچھ لوگوں نے کہا: یہ امّ کلثوم کا حق ہے، کیونکہ ان کے ہدیہ کے بدلے ملکہ کی طرف سے ہدیہ آیا ہے، اس کے لیے جائز تھا، ملکہ روم کوئی ذمی عورت نہیں ہے کہ (ہدیہ بھیج کر) آپ سے کچھ کرانا چاہتی ہو اور نہ آپ کی مملوکہ ہے کہ وہ آپ کو خوش رکھنا چاہتی ہو، (لہٰذا اسے لینے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔) اور کچھ لوگوں نے کہا: ہم بھی کپڑے ہدیہ میں دیتے تھے تاکہ بدلہ میں ہمیں کچھ کپڑا مل جائے، پھر اسے ہم بازار میں فروخت کریں اور کچھ کمالیں۔ آپ نے فرمایا: (ٹھیک ہے، لیکن یہاں) قاصد تو تمام مسلمانوں کا تھا اور خاص انہی کی ڈاک لے کر گیا تھا، لہٰذا وہ اسے ناپسند کریں گے۔ چنانچہ آپ نے وہ ہدیہ بیت المال میں جمع کرنے کا حکم دیا اور امّ کلثوم کو ان کی خرچ کی ہوئی رقم کا عوض دے دیا۔ [1] ۱۰: امّ سلیط زیادہ حق دار ہیں: ثعلبہ بن ابی مالک سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مدینہ کی خواتین میں چادریں تقسیم کیں، ایک بہت اچھی چادر بچ گئی، آپ کے پاس جو لوگ بیٹھے ہوئے تھے ان میں سے کسی نے کہا: اے امیر المومنین! بہتر ہے کہ آپ اسے نواسیٔ رسول یعنی اپنی بیوی امّ کلثوم بنت علی کو دے دیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ام سلیط اس کی زیادہ حق دار ہیں، وہ ان انصاری خواتین میں سے ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی اور ان کو یہ مرتبہ حاصل ہے کہ وہ غزوۂ احد کے موقع پر ہمارے لیے پانی کے مشکیزے پیش کرتی تھیں۔ [2] ۱۱: تم اپنے باپ کو دھوکا دیتي ہو اور قرابت داروں کی خیر خواہ بنتي ہو: سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس کہیں سے زیادہ مال آیا، ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا کو اس کی خبر ملی تو کہا: اے امیر المومنین! اس مال میں آپ کے رشتہ داروں کا بھی حق ہے، اللہ تعالیٰ نے اس مال سے رشتہ داروں کو بھی دینے کا حکم دیا ہے۔ آپ نے فرمایا: اے میری بیٹی، میرے رشتہ داروں کا حق میرے مال میں ہے، اور یہ مال مسلمانوں کا ہے، تم اپنے باپ کو دھوکا دیتی ہو اور رشتہ داروں کی خیر خواہ بنتی ہو، جاؤ چلی جاؤ۔ [3] ۱۲: تم چاہتے ہو کہ ایک خائن حاکم کی شکل میں اللہ سے ملوں: سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کے پاس ان کے داماد آئے، اور آپ سے بیت المال سے کچھ مال کا مطالبہ کیا، عمر رضی اللہ عنہ نے
[1] التاریخ الإسلامی: ۱۹/ ۳۰ [2] الشیخان أبوبکر وعمر بروایۃ البلاذری، ص: ۲۶۰ [3] اخبار عمر، ص: ۲۹۳۔ الشیخان بروایۃ البلاذری، ص: ۱۸۸