کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 223
نفع تمہارا ہوجائے گا۔ ان دونوں نے ایسا ہی کیا اور ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس خط لکھ دیا کہ ان دونوں سے مرسلہ رقم لے لیں۔ جب وہ دونوں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو آپ نے دریافت کیا کہ کیا جس طرح تم دونوں کو ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے قرض دیا ہے اسی طرح مجاہدین کے پورے لشکر کو دیا تھا؟ انہوں نے جواب دیا: نہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رقم اور اس کے ذریعہ سے حاصل کیا ہوا نفع دونوں واپس کرو۔ چنانچہ عبداللہ رضی اللہ عنہ خاموش رہے، لیکن عبید اللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اے امیر المومنین! آپ کا یہ عمل مناسب نہیں ہے، اگر رقم ضائع ہوجاتی، یا اس میں کچھ کمی ہوجاتی تو ہم ہی اس کے ضامن ہوتے۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم دونوں پوری رقم واپس کردو اور اس مرتبہ بھی عبداللہ رضی اللہ عنہ خاموش رہے لیکن عبید اللہ رضی اللہ عنہ حجت کرتے رہے۔ عمر رضی اللہ عنہ کے ہم نشینوں میں سے ایک آدمی نے کہا: اے امیر المومنین! اگر آپ درپیش مسئلہ کو قراض یعنی شراکت کی تجارت قرار دیتے تو بہتر ہوتا۔ [1] چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے اصل رقم اور آدھا نفع لے لیا، اور آدھا نفع عبد اللہ اور عبیداللہ رضی اللہ عنہما نے لیا۔ صحابہ کا بیان ہے کہ اسلام میں قراض کی یہ پہلی تجارت عمل میں آئی۔ ۴: وظیفہ تقسیم کرنے میں اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو عبداللّٰہ بن عمر رضی اللہ عنہما پر فضیلت دینا: سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ وظائف تقسیم کرتے تھے اور حسب ونسب نیز سبقت الی الاسلام کو مدنظر رکھتے ہوئے بعض کو بعض پر فضیلت دیتے تھے۔ چنانچہ آپ نے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کا وظیفہ چار ہزار مقرر کیا اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا تین ہزار۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: اے والد محترم! آپ نے اسامہ بن زید کو چار ہزار اور مجھے تین ہزار ہی کیوں دیا، اس کے باپ میں کون سی خوبی تھی جو آپ میں نہیں ہے؟ اور اسامہ میں کون سی اچھائی ہے جو مجھ میں نہ ہو؟ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ان کے والد تمہارے باپ کے مقابلہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زیادہ محبوب نظر تھے اور خود اسامہ اللہ کے رسول کو تم سے زیادہ محبوب تھے۔ [2] ۵: ایک مہینہ تک تم پر خرچ کیا ہے: عاصم بن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے بلانے کے لیے اپنے غلام ’’یرفا‘‘ کو بھیجا، میں آپ کے پاس آیا، آپ مسجد میں تشریف فرما تھے۔ آپ نے حمد وثنا کی اور کہا: اما بعد! بے شک میں اس مال (بیت المال) کا نگراں وذمہ دار ہونے سے پہلے صرف جائز طور پر اپنے لیے کچھ مال حلال سمجھتا تھا، لیکن جب میں اس کا نگران بنا دیا گیا تو میں اتنا اور وہ بھی اپنے لیے حرام سمجھتا ہوں، لہٰذا تم ماضی میں دی ہوئی میری امانت کو لوٹا دو، میں نے تم پر ایک مہینہ تک اللہ کا مال خرچ کیا ہے، اب اس سے زیادہ میں نہیں کرسکتا اور میں نے تمہارا پھل عالیہ میں بطور عطیہ دے دیا ہے، تم اس کی قیمت لے لو، اور اپنی قوم کے کسی تاجر کی مصاحبت اختیار کرلو، جب وہ
[1] مناقب عمر، ابن الجوزی: ۱۵۷، ۱۵۸ [2] تاریخ الإسلام، عہد الخلفاء الراشدین/ ذہبی، ص: ۲۷۰، ۲۷۱