کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 221
متحرک وفعال بنانے اور عمل کے مواقع فراہم کرنے کی قدرت، شورائیت کے ذریعہ سے قرار دادوں کو طے کرنے میں مشارکت، ناگہانی حالات میں لوگوں کے رجحانات کا رخ موڑنے کی پوری مہارت اور اپنے عمال وحکام کی سخت نگرانی جیسے اعلیٰ قائدانہ صفات سے متصف تھے۔ موقع بہ موقع قارئین کرام ان شاء اللہ آپ کی ان صفات حمیدہ کو ملاحظہ کریں گے۔ یہاں تمام اوصاف کا حصر مقصود نہیں ہے۔ لہٰذا تکرار سے بچنے کی غرض سے اتنے پر ہی اکتفا کرتا ہوں۔ عائلی زندگی : سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حاکم جب تک اللہ کے حقوق ادا کرتا ہے رعایا اس کے حقوق ادا کرتی ہے اور جب حاکم اللہ کے حقوق پامال کرنا شروع کردیتا ہے تو رعایا اس کے حقوق پامال کرنے لگتی ہے۔ [1] یہی وجہ تھی کہ آپ اپنا اور اپنے گھر والوں کا سختی سے محاسبہ کرتے تھے۔ آپ جانتے تھے کہ نگاہیں آپ کی طرف دیکھ رہی ہیں اور اس میں کوئی فائدہ نہیں کہ خود اپنی ذات پر سختی کریں اور گھر والے عیش وعشرت کی زندگی گزاریں اور پھر بروز قیامت ان کے بارے میں باز پرس ہو، ساتھ ہی دنیا میں زبان خلق انہیں معاف نہیں کرسکتی، چنانچہ آپ جب کوئی امتناعی حکم جاری کرتے تو سب سے پہلے اپنے گھر والوں کے پاس آتے اور فرماتے: میں نے لوگوں کو فلاں فلاں کام سے روک دیا ہے، لوگ تم پر اسی طرح نگاہ رکھتے ہیں جس طرح گوشت خور پرندہ گوشت پر۔ پس اگر تم نے حکم کی خلاف ورزی کی تو وہ بھی کریں گے اور اگر تم دور رہے تو وہ بھی دور رہیں گے۔ اللہ کی قسم! اگر میرے پاس کوئی فرد لایا گیا جو میرا قریبی ہے اور میرے حکم کی خلاف ورزی کی ہے، تو میں اس کو دہری سزا دوں گا۔ لہٰذا جو چاہے خلاف ورزی کرے اور جو چاہے اس سے باز رہے۔ [2] آپ اپنی بیویوں، بچوں اور رشتے داروں کے رہن سہن اور اخراجات پر کڑی نگاہ اور سخت نگرانی رکھتے تھے۔ اس کی چند مثالیں یہاں ذکر کی جا رہی ہیں: ۱: رفاہ عامہ کی ملکیت: سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر والوں کو رفاہِ عامہ کے لیے خاص کی گئی ملکیتوں سے استفادہ کرنے سے منع کردیا تھا، محض اس خوف سے کہ کہیں اپنے گھرانے کی طرف داری نہ ہوجائے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ میں نے ایک اونٹ خرید کر رفاہی چراگاہ میں چرنے کے لیے چھوڑ دیا۔ جب وہ موٹا ہوگیا تو میں اس کو لے کر بازار گیا، عمر رضی اللہ عنہ بازار آئے اور موٹے اونٹ کو دیکھا تو پوچھا: یہ کس کا اونٹ ہے؟ آپ کو بتایا گیا کہ عبداللہ بن عمر
[1] صحیح البخاری، حدیث نمبر: ۷۲۸۶۔ ۴۶۴۲ [2] شہید المحراب، ص: ۱۱۸ [3] محض الصواب: ۲/ ۶۰۲