کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 218
صدقہ کا اونٹ ہے اس میں یتیموں، بیواؤں، اور مسکینوں کا حق ہے۔ ایک آدمی نے کہا: اے امیر المومنین، اللہ آپ پر رحم کرے، صدقہ کے غلاموں میں سے کسی غلام کو کیوں نہیں حکم دے دیتے وہ یہ کام کردے گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھ سے اور احنف سے بڑا غلام کون ہے؟ جو مسلمانوں کا حاکم ہے اس پر خیر خواہی اور امانت کی ادائیگی سے متعلق رعایا کا وہی حق ہے جتنا آقا کا غلام پر ہے۔ [1] سیّدنا عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو کندھے پر پانی کا ایک مشکیزہ اٹھائے ہوئے دیکھا تو میں نے کہا: اے امیر المومنین! آپ کے لیے یہ مناسب نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا: جب وفود اطاعت وفرماں برداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے میرے پاس آئے تو میرے دل میں اپنی بڑائی کا احساس ہوا، اس لیے میں نے اس بڑائی کو توڑنا ضروری سمجھا۔ [2] سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ باہر گیا، آپ ایک باغ میں داخل ہوئے، میرے اور آپ کے درمیان ایک دیوار حائل تھی۔ آپ باغ کے اندر تھے، میں نے اس وقت عمر رضی اللہ عنہ کو خود سے خطاب کرتے ہوئے سنا: ’’اے عمر بن خطاب! تو امیر المومنین ہے، کیا خوب، تو خطاب کا معمولی بیٹا ہے، تو اللہ سے ڈر، ورنہ وہ تجھے عذاب دے گا۔‘‘ [3] جبیر بن نفیر سے روایت ہے کہ کچھ لوگوں نے کہا: اے امیر المومنین ہم نے آپ سے زیادہ عدل پرور، حق گو، اور منافقین کے لیے سخت کسی شخص کو نہیں دیکھا، آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے اچھے آدمی ہیں۔ عوف بن مالک [4]نے کہا: اللہ کی قسم تم جھوٹے ہو۔ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی ایسے آدمی کو دیکھا ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: وہ کون ہیں؟ عوف نے کہا: ابوبکر رضی اللہ عنہ ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: عوف نے سچ کہا اور تم جھوٹ کہہ رہے ہو۔ اللہ کی قسم، یقینا ابوبکر رضی اللہ عنہ کستوری کی خوشبو سے بھی اچھے تھے اور میں اپنے گھر کے اونٹ سے بھی زیادہ گمراہ تھا (اسلام لانے سے پہلے)۔ کیونکہ ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ سے چھ سال قبل اسلام لاچکے تھے۔ [5] مذکورہ واقعہ سے عمر رضی اللہ عنہ کی تواضع اور آپ کی نگاہ میں فضلاء کا قدر و احترام نمایاں ہے۔ آپ کی یہ خاکساری صرف زندوں تک محدود نہ تھی بلکہ فوت شدگان کے لیے بھی آپ کا یہی طرزِ عمل ہوتا تھا۔ آپ قطعاً یہ بات پسند نہ کرتے تھے کہ فوت شدگان کے فضل واحترام کو نظر انداز کردیا جائے یا ان کی کوئی یادگار باقی نہ رہے، بلکہ ہمیشہ آپ ان کو ذکر خیر سے یاد رکھتے تھے اور لوگوں کو بھی احترام وفات شدگان اور ان کی قربانیوں کی
[1] صفۃ الصفوۃ: ۱/ ۲۸۵ [2] أصحاب الرسول، محمود المصری: ۱/ ۱۵۷ [3] صلاح الأمۃ فی علو الہمۃ، سید العفانی: ۵/ ۴۲۵