کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 217
۴: تواضع: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کے راستے میں عباس رضی اللہ عنہ کے پرنالے کا پانی گرتا تھا، ایک مرتبہ جمعہ کے دن عمر رضی اللہ عنہ کپڑے پہن کر گھر سے نکلے، اتفاق سے اس دن عباس رضی اللہ عنہ کے گھر دو چوزے ذبح کیے گئے تھے۔جب عمر رضی اللہ عنہ پرنالے کے نیچے پہنچے تو خون آلود پانی آپ کے اوپر گرنے لگا۔ آپ نے پرنالے کو اکھاڑنے کا حکم دے دیا اور واپس ہوگئے۔ ان کپڑوں کو اتار کر دوسرے کپڑے زیب تن کیے، پھر آئے اور لوگوں کو نماز پڑھائی۔ عباس رضی اللہ عنہ آپ کے پاس آئے اور کہا: اللہ کی قسم، وہ پرنالا اسی جگہ لگا تھا، جہاں اسے اللہ کے رسول نے لگایا تھا، تو عمر رضی اللہ عنہ نے عباس رضی اللہ عنہ سے کہا: میں آپ سے زور دے کر کہتا ہوں کہ میری پیٹھ پر چڑھ کر پرنالے کو اسی جگہ لگا دیں جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لگایا تھا، چنانچہ عباس رضی اللہ عنہ نے ویسا ہی کیا۔ [1] حسن بصری سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ سخت گرمی کے دن میں عمر رضی اللہ عنہ سر پر اپنی چادر ڈالے ہوئے باہر نکلے آپ کے قریب سے گدھے پر سوار ایک غلام کا گزر ہوا، آپ نے کہا: اے غلام، اپنے ساتھ مجھے بھی بٹھا لو، غلام گدھے سے اتر کر نیچے آگیا اور کہا: اے امیر المومنین آپ سوار ہوجائیں، آپ نے فرمایا: نہیں، تم آگے سوار ہو میں تمہارے پیچھے بیٹھتا ہوں، کیا تم مجھے نرم ملائم جگہ پر اور خود کو سخت جگہ پر بٹھانا چاہتے ہو۔ چنانچہ آپ غلام کے پیچھے سوار ہوگئے اور اسی حالت میں مدینہ میں داخل ہوئے اور لوگ آپ کو تعجب بھری نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ [2] سنان بن سلمہ ہذلی سے روایت ہے کہ میں بچوں کے ساتھ نکلا، ہم سب ’’بلح‘‘ (سبز کھجور) چن رہے تھے، اتنے میں عمر رضی اللہ عنہ بھی آگئے، ان کے ہاتھ میں درّہ تھا، جب بچوں نے آپ کو دیکھا تو باغ میں منتشر ہوگئے لیکن میں کھڑا رہا، میرے تہبند میں کچھ کھجوریں تھیں جن کو میں نے اکٹھا کیا تھا۔ میں نے کہا: اے امیر المومنین! یہ کھجوریں ہوا سے زمین پر گری پڑی تھیں۔ آپ نے میرے تہبند کی کھجوروں کو دیکھا، لیکن مجھے نہیں مارا، میں نے کہا: اے امیر المومنین! اور بھی بچے ہیں جنہیں میں دیکھ رہا ہوں ابھی وہ لوگ مجھ سے ان کھجوروں کو چھین لیں گے۔ آپ نے فرمایا: نہیں، ہرگز نہیں۔ چلو میرے ساتھ چلو۔ پھر آپ مجھے لے کر میرے گھر والوں کے پاس آئے۔ [3] ایک مرتبہ سخت گرمی کے موسم میں عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں عراق سے ایک وفد آیا اس میں احنف بن قیس بھی تھے۔ عمر رضی اللہ عنہ سر پر پگڑی باندھے ہوئے صدقہ کے اونٹوں میں سے ایک اونٹ کو تیل (رانگ) لگا رہے تھے۔ آپ نے کہا: اے احنف! اپنا کپڑا اتارو، اور آؤ اس اونٹ کو تیل لگانے میں میری مدد کرو۔ اس لیے کہ یہ
[1] التاریخ الاسلامی: ۱۹/ ۳۷ [2] تاریخ المدینۃ المنورۃ، ص: ۷۰۲۔ اس واقعہ میں کمال کی بات یہ ہے کہ دودھ پیتے ہی آپ کو محسوس ہوگیا کہ دودھ میں کچھ گڑبڑ ہے، یہ تھے ہمارے اسلاف اور آج ہماری حالت یہ ہے کہ حرام وحلال میں ہمیں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا، بلکہ حرام زیادہ لذیذ لگتا ہے۔ العیاذ باللہ (مترجم) [3] التاریخ الإسلامی: ۱۹/ ۲۸ [4] فرائد الکلام للخلفاء الکرام، ص: ۱۱۳۔ الفاروق، الشرقاوی، ص: ۲۷۵