کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 215
کہ ان کو رلا دیا، پھر فرمایا: میرے دو ساتھی تھے، وہ ایک ہی راستہ پر چلے، اگر میں بھی ان ہی کی طرح تنگ دستی کی زندگی گزار لوں تو شاید فارغ البالی اور کشادہ دستی کے وقت ان دونوں کے ساتھ رہ سکوں۔ [1] دنیا آپ کی نگاہوں کے سامنے اور قدموں کے نیچے آچکی تھی۔ آپ کے عہد خلافت میں اس کی بیشتر سلطنتیں فتح ہوچکی تھیں اور دُنیا ذلیل وخوار ہو کر آپ کے قدموں پر گر رہی تھی۔ لیکن کبھی آپ نے اس کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھا بھی نہیںاور نہ کبھی دل میں اس کی خواہش پیدا ہوئی۔ بلکہ دین الٰہی کو قوت دینے اور مشرکوں کی شان وشوکت توڑنے میں ہی آپ نے پوری بھلائی اور سعادت سمجھی، گویا آپ کی شخصیت میں زہد وتقویٰ ایک نمایاں صفت تھی۔ [2] سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اللہ کی قسم، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہم سے ہجرت میں مقدم نہ تھے، میں جانتا ہوں کہ آپ کس چیز میں ہم سے افضل تھے، آپ ہمارے مقابلہ میں سب سے زیادہ زاہد اور دنیا سے بے زار شخص تھے۔ [3] ۳: ورع: آپ کے ورع کی ایک مثال وہ واقعہ ہے جسے ابوزید عمر بن شبہ نے معدان بن ابو طلحہ یعمری کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ وہ عمر رضی اللہ عنہ کے پاس کپڑے اور کھانا لے کر آئے اور آپ کے حکم سے اسے لوگوں میں تقسیم کردیا گیا، پھر آپ نے دعا کی: اے اللہ تو خوب جانتا ہے کہ میں نے خود لوگوں کو نہیں کھلایا ، اور نہ خود کو ان پر ترجیح دی، صرف میں ان کے ساتھ کھانے میں شریک ہوا ہوں، پھر بھی مجھے ڈر ہے کہ کہیں تو اس کھانے کو عمر کے پیٹ میں آگ کا سبب نہ بنا دے۔ معدان کا بیان ہے کہ اس کے بعد آپ نے اپنی مخصوص رقم سے ایک بڑا پیالہ بنوایا پھر اسے عام لوگوں کی پلیٹوں کے درمیان رکھنے لگے۔ امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خواہش ہوتی تھی کہ عام مسلمانوں کے ساتھ کھانا تناول فرمائیں، کیونکہ اس میں کئی معاشرتی مصلحتیں پوشیدہ ہوتی تھیں۔ جو کھانا مسلمانوں کے بیت المال سے بنایا جاتا تھا اسے کھانے میں حرج محسوس کرتے تھے، اسی وجہ سے حکم دیتے تھے کہ میرے ذاتی مال سے بنایا ہوا کھانا مجھے دیا جائے۔ آپ کی یہ احتیاط ورع اور پاک دامنی کی بلند ترین مثال ہے۔ غور کا مقام ہے کہ عام مسلمانوں کے ساتھ ان کے کھانے میں شریک ہونے سے حرام مال کھانے کا اندیشہ بالکل نہیں رہتا، اس لیے کہ آپ اس وقت عام مسلمانوں کے ایک فرد ہوتے ہیں، تاہم آپ اپنے ربّ کی رضا جوئی کی خاطر اس مال سے بھی اپنے آپ کو بچاتے ہیں اور خوف الٰہی کے پیش نظر خود کو شبہات کے قریب جانے سے
[1] الحلیۃ: ۱/ ۵۰۔ یہ روایت انقطاع ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔ مناقب عمر، ابن الجوزی، ص: ۱۳۷ [2] الزہد، لإمام أحمد، ص: ۱۲۴۔ یہ روایت متعدد طرق سے منقول ہے۔ [3] الطبقات الکبریٰ (۳/۳۲۸)۔ اس کی سند صحیح ہے۔ [4] محض الصواب فی فضائل الأمیر المومنین الخطاب: ۲/ ۵۶۶ [5] الطبقات، ابن سعد: ۳/ ۲۷۹۔ اس کی سند صحیح ہے۔