کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 214
يَوْمَ تَرَوْنَهَا تَذْهَلُ كُلُّ مُرْضِعَةٍ عَمَّا أَرْضَعَتْ وَتَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا (الحج:۲) ’’جس دن تم اسے دیکھو گے ہر دودھ پلانے والی اس سے غافل ہوجائے گی جسے اس نے دودھ پلایا اور ہر حمل والی اپنا حمل گرا دے گی۔‘‘ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے دنیا کے بارے میں غور کیا تو اس نتیجہ پر پہنچا کہ اگر دنیا کو ترجیح دوں تو آخرت کا نقصان اٹھاتا ہوں اور اگر آخرت چاہتا ہوں تو دنیا کا نقصان اٹھاتا ہوں۔ لہٰذا جب معاملہ اس طرح ہے تو فانی دنیا ہی کا نقصان اٹھانا بہتر ہے۔ [1] ایک مرتبہ آپ لوگوں سے خطاب فرمارہے تھے حالانکہ آپ خلیفہ تھے اور آپ کی تہبند میں بارہ پیوند لگے تھے۔[2] ایک مرتبہ عمر رضی اللہ عنہ خانہ کعبہ کا طواف کررہے تھے اور آپ کی لنگی میں بارہ (۱۲) پیوند لگے تھے، ان میں ایک سرخ رنگ کے چمڑے کا تھا۔ [3] ایک مرتبہ جمعہ کے موقع پر آپ گھر سے دیر سے نکلے اور اپنی تاخیر کا عذر بیان کرتے ہوئے کہا: میں اپنے یہ کپڑے دھو رہا تھا اور میرے پاس اس کے علاوہ دوسرے کپڑے نہ تھے۔ [4] عبد اللہ بن عامر بن ربیعہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حج کے دوران مدینہ سے مکہ تک میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہا، ہم حج سے واپس بھی آگئے، لیکن راستے میں آپ کے لیے کہیں کوئی شامیانہ یا خیمہ نہیں لگایا گیا، بلکہ چادر اور چٹائی وغیرہ درخت پر ڈال دیتے اور آپ اس کے نیچے بیٹھ کر سایہ حاصل کرلیتے۔ [5] یہ ہیں امیر المومنین سیّدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ جو مشرق سے مغرب تک اپنی رعایا پر حکومت کرتے ہیں اور زمین پر ایک عام آدمی کی طرح بیٹھتے ہیں۔ ایک مرتبہ امّ المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا آپ کے پاس آئیں، دیکھا کہ آپ تنگی اور دنیا سے بے تعلقی کی زندگی گزار رہے ہیں، جس کی علامتیں آپ کے جسم پر ظاہر ہیں، تو کہا: اللہ تعالیٰ نے بڑے احسانات کیے ہیں اور روزی آپ کے لیے کشادہ کردی ہے، اگر آپ عمدہ کھانا اور نرم کپڑا پہنتے تو کتنا اچھا ہوتا۔ آپ نے فرمایا: معاملہ تمہارے سپرد کرتا ہوں تم خود فیصلہ کرلو، پھر آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تنگ گزر بسر کا حوالہ دیا اور برابر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نامساعد حالات اور آپ کے ساتھ حفصہ رضی اللہ عنہا کی تنگ دستی کا ذکر کرتے رہے، یہاں تک
[1] من اخلاق النصر فی الصحابۃ، د/ السید محمد نوح، ص: ۴۸، ۴۹ [2] آپ کا نام جعفر بن حیان سعدی ہے۔ [3] الزہد/ الامام أحمد، ص: ۱۱۸