کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 211
آپ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پاس ان کے گھر تشریف لے گئے۔ وہ ایک تکیہ پر ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ ابی رضی اللہ عنہ نے تکیہ اپنے نیچے سے نکال کر امیر المومنین کو پیش کیا اور کہا: اس پر ٹیک لگا لیجیے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے پاؤں سے اسے دھکیل دیا اور پھر بیٹھ گئے پھر مذکورہ آیت پڑھ کر سنائی اور کہا: مجھے خوف ہے کہیں میں ہی اس آیت کا مصداق نہ ٹھہروں کہ مومنوں کو تکلیف دیتا ہوں۔ ابی رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ رعایا کی دیکھ بھال کریں، انہیں بھلائیوں کا حکم دیں اور برائیوں سے منع کریں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم نے ٹھیک ہی کہا، واللہ اعلم ۔ [1] سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کبھی کبھار آگ جلاتے اور اس میں اپنا ہاتھ ڈالتے، پھر خود کو مخاطب کرکے کہتے: اے خطاب کے بیٹے! کیا تجھے اس پر صبر کرنے کی طاقت ہے۔ [2] فتح قادسیہ کے موقع پر جب سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کے پاس کسریٰ کی چادر، تلوار، کمر بند، پائجامے، قمیص، تاج زرنگار، اور دونوں موزے بھیجے تو آپ نے لوگوں پر ایک نگاہ دوڑائی، ان میں سراقہ بن جعثم المدلجی قد و قامت کے اعتبار سے سب سے زیادہ موزوں تھے۔ آپ نے کہا: اے سراقہ! اٹھو، اور یہ لباس پہنو۔ چنانچہ وہ کھڑے ہوئے اور اسے پہن لیا، اور اسے مل جانے کی امید باندھ لی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: پیچھے مڑو! وہ پیچھے مڑ گئے۔ پھر کہا: سامنے آؤ، وہ سامنے آئے۔ پھر کہا کیا خوب کیا خوب، بنو مدلج کے ایک بدوی کے جسم پر کسریٰ کی چادر، پائجامے، تلوار، اس کا ٹیکا، تاج زرنگار اور موزے۔ اے سراقہ بن مالک! کبھی کوئی دن آتا جب تیرے پاس کسریٰ کے ساز و سامان ہوتے وہ تیرے لیے اور تیری قوم کے لیے شرف وعزت کا باعث بنتا، لباس اتار دو۔ سراقہ نے کپڑے اتار دیے۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے اللہ ! تو نے اپنے رسول اور نبی کو یہ (سازو سامان) نہیں دیا جب کہ وہ میرے مقابلہ میں تجھے زیادہ محبوب تھے اور میرے مقابلہ میں تیرے نزدیک زیادہ مکرّم تھے۔ اسی طرح ابوبکر کو نہیں دیا حالانکہ وہ بھی میرے مقابلہ میں تجھے زیادہ محبوب تھے اور میرے مقابلہ میں تیرے نزدیک زیادہ مکرّم تھے۔ پھر تو نے اسے مجھے دیا، میں تیری پناہ چاہتا ہوں، کہیں کسی آزمائش کے لیے تو تو نے مجھے یہ نہیں دیا ؟ پھر آپ رونے لگے یہاں تک کہ جو لوگ آپ کے پاس تھے انہیں آپ پر رحم آگیا، پھر آپ نے عبدالرحمن بن عوف سے کہا: تمہیں قسم دلاتا ہوں، شام ہونے سے قبل اسے بیچ کر لوگوں میں تقسیم کردو۔ اس موضوع پر آپ کے بہت سے واقعات ہیں۔ [3] ۲: زہد: قرآن کے سایہ میں زندگی گزار کر، نبی صادق و امین صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کرکے اور حیات فانی کا جائزہ لے
[1] مختصر منہاج القاصدین، ص: ۳۷۲۔ فرائد الکلام، ص: ۱۴۳ [2] مناقب عمر، ص: ۱۶۰، ۱۶۱ [3] مناقب عمر، ص: ۱۶۱ [4] مصنف عبد الرزاق: ۱/ ۷۵،۷۶ اس کی سند حسن ہے۔ محض الصواب: ۲/ ۶۲۲