کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 210
جائے، اور اپنی قدر وقیمت کو تول لو اس سے پہلے کہ تم تولے جاؤ۔ اور بڑی پیشی (یعنی روز جزا) کے لیے تیار رہو: يَوْمَئِذٍ تُعْرَضُونَ لَا تَخْفَى مِنْكُمْ خَافِيَةٌ (الحاقۃ:۱۸) [1] ’’اس دن تم سب پیش کیے جاؤ گے اور تمہارا کوئی بھید پوشیدہ نہ رہے گا۔‘‘ خشیت الٰہی اور محاسبہ نفس کا یہ عالم تھا کہ آپ فرماتے: ’’اگر دریائے فرات کے ساحل پر بکری کا ایک بچہ بھی مرگیا تو مجھے ڈر ہے کہ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ عمر سے محاسبہ کرے گا۔ [2] سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ ایک اونٹ پر سوار ہو کر بہت تیزی سے جا رہے ہیں۔ میں نے کہا: اے امیر المومنین! آپ کہاں جا رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا: صدقہ کے اونٹوں میں سے ایک اونٹ بھاگ گیا ہے اسی کی تلاش میں جا رہا ہوں۔ میں نے کہا: آپ نے اپنے بعد کے خلفاء کو ذلیل کر دیا؟ آپ نے فرمایا: ’’اے ابوالحسن مجھے ملامت نہ کرو، قسم ہے اس ذات کی جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت سے سرفراز کرکے بھیجا، اگر دریائے فرات کے ساحل پر بکری کا ایک بچہ بھی مر گیا تو بروز قیامت عمر سے اس کے بارے میں باز پرس ہوگی۔‘‘[3] ابوسلامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں عمر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا، دیکھا تو آپ حرم میں اس حوض پر جہاں لوگ وضو کررہے تھے، مردوں اور عورتوں کو مار کر بھگا رہے تھے۔ یہاں تک کہ آپ نے مردوں اور عورتوں کو الگ الگ کردیا۔ پھر کہا: اے فلاں! میں نے کہا: حاضر ہوں، آپ نے فرمایا: تمہاری حاضری کا کوئی فائدہ نہیں، کیا میں نے تم کو حکم نہیں دیا تھا کہ مردوں کے لیے الگ اور عورتوں کے لیے الگ وضوخانہ بناؤ۔ پھر آپ پیچھے ہٹ گئے، اور علی رضی اللہ عنہ سے آپ کی ملاقات ہوگئی، آپ نے فرمایا: مجھے خوف ہے کہ برباد نہ ہوجاؤں۔ انہوں نے کہا: کون سی چیز آپ کو برباد کرنے والی ہے؟ آپ نے فرمایا: میں نے حرم مکہ کے اندر مردوں اور عورتوں کو مار بھگایا ہے، انہوں نے کہا: اے امیر المومنین! آپ بھی حکام میں سے ایک حاکم ہیں۔ اگر آپ نے خیر خواہی اور اصلاح کی خاطر ایسا کیا ہے تو اللہ تعالیٰ آپ کو ہرگز سزا نہ دے گا اور اگر کسی کینہ وکدورت کی بنا پر ان کو مارا ہے تو آپ یقینا ظالم ہیں۔ [4] حسن بصری سے روایت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ مدینہ کی گلیوں میں گشت کررہے تھے، آپ نے ایک جگہ اس آیت کی تلاوت سنی: وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ (الاحزاب:۵۸) ’’جو لوگ مومن مردوں اور مومنہ عورتوں کو تکلیف دیتے ہیں۔‘‘
[1] الفاروق، الشرقاوی، ص: ۲۲۲ [2] محض الصواب: ۲/ ۵۰۳ [3] تاریخ الطبری: ۴/ ۲۴۴ اس کی سند ضعیف ہے۔