کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 208
’’میں حلفیہ کہتا ہوں کہ تب میں چلا جاؤں گا۔‘‘ آپ نے کہا: اگر تم چلے جاؤ گے تو کیا ہوگا اے اعرابی! اس نے کہا: واللہ عن حالی لتَسْأَلنَّہٗ یوم تکون الأعطیات منّہ ’’اللہ کی قسم! تم سے میری حالت سے متعلق پوچھا جائے گا، پھر وہاں اور بھی بہت سے سوالات ہوں گے۔‘‘ والواقف المسؤل بینہنہ إما إلی نار و إما جنۃ ’’ذمہ دار کھڑا ہو کر ان سوالوں کا جواب دے گا، پھر ٹھکانا یا تو جہنم ہوگا یا جنت۔‘‘ یہ سن کر سیّدناعمر رضی اللہ عنہ رو پڑے یہاں تک کہ آنسوؤں سے آپ کی داڑھی بھیگ گئی۔ پھر خادم کو مخاطب کرکے فرمایا: اے غلام! اس دن (یعنی روزِ آخرت) کے محاسبہ سے بچنے کے لیے (نہ کہ اس کے شعر پڑھنے کی وجہ سے) اسے میری قمیض دے دو۔ واللہ میرے پاس اس کے علاوہ دوسری قمیض نہیں ہے۔ [1] اس طرح عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بدوی کے شعر سے متاثر ہو کر خوب روئے کیونکہ اس میں اس نے آپ کو قیامت کے دن حساب وکتاب کا حوالہ دیا تھا، باوجودیہ کہ آپ کو نہیں یاد تھا کہ آپ نے کسی پر ظلم بھی کیا ہے۔ پھر بھی آپ پر خشیت الٰہی کا ایسا غلبہ تھا کہ ہر کس وناکس کی زبان سے روز قیامت کا ذکر سن کر آپ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی تھی۔[2] خوفِ الٰہی کا ہی نتیجہ تھا کہ آپ اپنے نفس کا بہت سختی سے محاسبہ کرتے تھے، اگر آپ کو احساس ہوجاتا کہ آپ نے کسی کی حق تلفی کی ہے تو اسے فوراً بلواتے اور اسے بدلہ لینے کا حکم دیتے۔ آپ لوگوں سے انفرادی ملاقات کرتے، ان کی ضرورتوں کو معلوم کرتے، جب وہ اپنا مطالبہ لے کر آپ کے پاس جاتے تو آپ اسے پورا کرتے۔ اسی طرح جب آپ خود کو کسی عوامی کام کے لیے فارغ کرتے تو مخصوص شکایات پیش کرنے سے لوگوں کو منع کرتے تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ آپ رعایا کے بعض کاموں میں مشغول تھے، [3] ایک آدمی آیا اور اس نے کہا: اے امیر المومنین! میرے ساتھ چلیں اور فلاں نے مجھ پر ظلم کیا ہے اس پر میری مدد کریں۔ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے درّہ اٹھایا اور اس آدمی کے سر پر اتنے زور سے مارا کہ اس کا سر چکرا گیا۔ پھر آپ نے فرمایا: اس وقت تم عمر
[1] فرائد الکلام للخلفاء الکرام، ص: ۱۵۵