کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 204
آنا چاہیے تھا۔ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا یہ وہ شعبان ہے جو گزر گیا، یا آئندہ شعبان ہے، یا جس شعبان کے مہینے سے ہم گزر رہے ہیں وہ مراد ہے؟ پھر آپ نے صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جمع کیا اور ان سے کہا: لوگوں کے لیے کوئی تاریخ متعین کرو جو سب کو معلوم رہے۔ کسی نے مشورہ دیا کہ روم والوں کی تاریخ کا اعتبار کیا جائے، اس پر یہ کہا گیا کہ وہ بہت لمبا سال ہوتا ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ وہ اپنی تاریخ ذوالقرنین کی پیدائش سے جوڑتے ہیں۔ کسی نے مشورہ دیا کہ اہل فارس کی تاریخ کا اعتبار کرلیا جائے۔ اس پر یہ کہا گیا کہ وہاں کا ہر نیا بادشاہ اپنے پہلے حکمران کے تمام احکامات وغیرہ کو کالعدم قرار دے دیتا ہے پھر وہ اس بات پر متفق ہوئے کہ دیکھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کتنے دنوں تک مدینہ میں رہے۔ چنانچہ انہوں نے حساب لگایا کہ اللہ کے رسول مدینہ میں دس سال رہے تو پھر آپ کی ہجرت کا اعتبار کرتے ہوئے اسی کو اسلامی تاریخ کا نقطہ آغاز بنا لیا گیا۔ [1] عثمان بن عبید اللہ [2]سے روایت ہے کہ میں نے سعید بن مسیب کو کہتے ہوئے سنا: سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مہاجرین اور انصار رضی اللہ عنہم کو جمع کیا اور کہا: کب سے ہم اپنی اسلامی تاریخ مقرر کریں؟ علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ جس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیار شرک کو چھوڑ کر ہجرت کی۔ سعید بن مسیب کا بیان ہے کہ پھر اسی کو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مقرر کیا۔ [3] ابن مسیب سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے ڈھائی سال گزر جانے کے بعد سب سے پہلے اسلامی تاریخ کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ کے مشورہ سے محرم کی ۱۶ تاریخ کو اسے مقرر کیا۔ [4] ابوالزناد [5] کا بیان ہے: عمر رضی اللہ عنہ نے اسلامی تاریخ کے بارے میں مشورہ لیا، تو ہجرت نبوی کے واقعہ سے اسلامی تاریخ کے آغاز پر سب کا اتفاق ہوگیا۔ [6] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ربیع الاوّل … کہ جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت مکمل ہوئی تھی … کے بجائے محرم سے اسلامی سال کے آغاز کی وجہ یہ بتائی ہے کہ جن صحابہ نے عمرفاروق رضی اللہ عنہ کو ہجرت نبوی سے اسلامی سال کے آغاز کا مشورہ دیا تھا انہوں نے سوچا کہ جو چیزیں سال کے آغاز کا سبب بن سکتی ہیں وہ چار ہیں: آپ کی پیدائش، نبوت، ہجرت اور وفات۔ پھر انہوں نے محسوس کیا کہ آپ کی پیدائش اور نبوت سے سرفرازی کا سال
[1] محض الصواب: ۱/ ۳۸۳۔ الطبقات الکبرٰی : ۳/ ۲۸۰۔ ۲۸۱ [2] روضۃ الطالبین: ۱۱/ ۱۳۷ [3] البدایۃ والنہایۃ: ۱۲/ ۲۲۸، ۲۲۹ [4] الأعلام، زرکلی: ۸/ ۲۴۹ [5] السلطۃ التنفیذیۃ: ۱/ ۲۱۸ [6] السلطۃ التنفیذیۃ: ۱/ ۲۱۹ [7] شرح صحیح مسلم، نووی: ۷/ ۱۳۷