کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 198
ڈر ہے کہ مسلمان عورتوں کو چھوڑ دو اور بدکار عورتوں سے شادی کرنے لگو۔‘‘ [1] ابوزہرہ کہتے ہیں کہ اس مقام پر ہمارے لیے یہ اصول بنانا ضروری ہے کہ مسلمان عورت میں ہر اعتبار سے پوری الفت ومحبت کے اسباب ہونے کی وجہ سے کسی مسلمان کے لیے یہ مناسب نہیں کہ انہیں چھوڑ کر غیر مسلم عورتوں سے شادی کرے۔ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کتابیہ عورتوں سے شادی کرنے سے منع کرتے تھے، اس لیے کہ اس کے پیچھے سیاسی تعلقات میں مضبوطی جیسے اہم مقاصد پوشیدہ ہوں تاکہ دلوں میں آپسی الفت ومحبت کا خوشگوار ماحول پیدا ہو۔ [2] اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں یہ واضح کر دیا ہے کہ مومنہ عورت سے شادی کرنا اگرچہ وہ لونڈی ہی کیوں نہ ہو، اس بات سے کہیں بہتر ہے کہ مشرکہ عورت سے شادی کی جائے، خواہ وہ آزاد ہی کیوں نہ ہو۔ ارشادِ الٰہی ہے: وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتَّى يُؤْمِنَّ وَلَأَمَةٌ مُؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِنْ مُشْرِكَةٍ وَلَوْ أَعْجَبَتْكُمْ وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّى يُؤْمِنُوا وَلَعَبْدٌ مُؤْمِنٌ خَيْرٌ مِنْ مُشْرِكٍ وَلَوْ أَعْجَبَكُمْ أُولَئِكَ يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ وَاللّٰهُ يَدْعُو إِلَى الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ بِإِذْنِهِ وَيُبَيِّنُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ (البقرۃ:۲۲۱) ’’اور مشرکہ عورتوں سے نکاح نہ کرو، یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں اور یقینا ایک مومنہ لونڈی کسی بھی مشرکہ عورت سے بہتر ہے، خواہ وہ تمھیں اچھی لگے اور نہ (اپنی عورتیں) مشرک مردوں کے نکاح میں دو، یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں اور یقینا ایک مومن غلام کسی بھی مشرک مرد سے بہتر ہے، خواہ وہ تمھیں اچھا معلوم ہو۔ یہ لوگ آگ کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ اپنے حکم سے جنت اور بخشش کی طرف بلاتا ہے اور لوگوں کے لیے اپنی آیات کھول کر بیان کرتا ہے، تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ ‘‘ اس آیت میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ مشرکہ عورتوں سے اس وقت تک شادی کرنے سے منع کرتا ہے جب تک کہ وہ اللہ پر ایمان اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق نہ کرنے لگیں اور اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھنے والی مومنہ لونڈی کو، خواہ وہ کالی کلوٹی اور خستہ حال ہی کیوں نہ ہو، آزاد مشرکہ عورت پر ترجیح دی ہے، اگرچہ وہ حسن وجمال والی، مال دار اور اعلیٰ حسب ونسب والی ہی کیوں نہ ہو اور اس حکم کے بالمقابل مومنہ عورتوں کو مشرک مرد سے شادی کرنے سے منع کیا اگرچہ وہ مشرک اپنے حسب نسب میں اعلیٰ، مال دار، خوبصورت اور مومن سے زیادہ خوش حال ہی کیوں نہ ہو۔ [3]
[1] الشعر والشعراء، ابن قتیبۃ: ۱/ ۳۲۷۔ عمر بن الخطاب، د/ أحمد ابوالنصر، ص: ۲۲۳ [2] أصحاب الرسول، محمود المصری: ۱/ ۱۱۰۔ محض الصواب: ۱/ ۳۷۶