کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 192
اور فرمایا: وَلَا تَجَسَّسُوا (الحجرات:۱۲) ’’اور بھید نہ ٹٹولا کرو۔‘‘ خلفائے راشدین اور عہد فاروقی میں رہائش گاہوں کی حرمت محفوظ تھی۔ [1] انفرادی ملکیت کی آزادی: خلفائے راشدین کے دور میں اسلامی شریعت کے مقرر کردہ اصولوں کی مکمل پاس داری کی گئی۔ چنانچہ جب کچھ سیاسی اور جنگی اسباب کی بنا پر سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نجران کے نصاریٰ اور خیبر کے یہودیوں کو جزیرہ عرب سے شام اور عراق کی طرف جلا وطن کرنے کے لیے مجبور ہوئے تو تمام مسلمانوں کی طرح ذمیوں کو دیے گئے اسلامی حقوق اور انفرادی ملکیت کا اقرار واحترام کرتے ہوئے انہیں اسی طرح کی زمین دینے کا حکم دیا جس طرح کی زمین کے وہ یہاں مالک تھے۔ [2] اور حرم مکی کی توسیع کے لیے جب آپ کو بعض مکانوں کی ملکیت ختم کرنے کی ضرورت پیش آئی تو اس کا پورا معاوضہ اسی بنیاد پر دیا کہ آپ کو انفرادی ملکیت کے ان حقوق کا مکمل اعتراف واقرار تھا جن کا مطالبہ مالکان کے ساتھ انصاف کے بغیر اضطراری حالات میں بھی جائز نہیں ہے۔ [3] خلفائے راشدین کے عہد میں انفرادی ملکیت کی آزادی مطلق العنان نہ تھی بلکہ شرعی حدود کی رعایت اور مصلحت عامہ سے مربوط تھی۔ روایت کیا گیا ہے کہ بلال بن حارث مزنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک زمین کا مطالبہ لے کر آئے، آپ نے ان کو ایک لمبی چوڑی زمین دے دی اور جب عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت آئی تو آپ نے ان سے کہا: اے بلال! تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک لمبی چوڑی زمین مانگی اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں دے دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی آدمی کچھ مانگتا تھا تو آپ اسے ضرور دیتے تھے اور اب پوری زمین استعمال کرنے کی تم میں طاقت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بہتر یہ ہے کہ جتنی زمین تم استعمال میں لاسکتے ہو اسے اپنی ملکیت میں رکھو اور جو تمہاری طاقت سے باہر ہے اسے ہمیں دے دو تاکہ ہم مسلمانوں میں تقسیم کردیں۔ انہوں نے کہا: اللہ کی قسم جو کچھ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے اس میں سے کچھ نہ دوں گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم کو ایسا کرنا پڑے گا اور پھر آپ نے بلال رضی اللہ عنہ کی وہ زمین جس کی آبادکاری سے وہ عاجز رہے قبضہ میں لے کر مسلمانوں میں تقسیم کردی۔ [4]
[1] نظام الحکم فی عہد الراشدین، ص: ۱۶۵ [2] القضاء ونظامہ فی الکتاب والسنۃ، د/ عبدالرحمن الحمیض، ص: ۴۸ [3] نظام الحکم فی عہد الراشدین، ص: ۱۶۵