کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 191
کے سلسلہ میں مامون نہیں ہے۔‘‘ [1] آپکا یہ فرمان اس بات کی دلیل ہے کہ دباؤ اور دھمکیوں کے نتیجہ میں کسی مشتبہ مجرم سے جرم کا اقرار اور اعتراف کرانا شرعاً معتبر نہیں ہے، خواہ اس کے لیے مادی ذریعہ اختیار کیا گیا ہو مثلاً مشتبہ مجرم کی تنخواہ یا آمدنی کے ذرائع پر پابندی لگا دی جائے، یا معنوی ذریعہ اختیار کیا گیا ہو مثلاً اسے دھمکیاں دی گئی ہوں اور سزاؤں سے خوفزدہ کیا گیا ہو۔ آپ نے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو جب کہ وہ قاضی تھے، یہ خط لکھا تھا: ’’مدعی کا حق کالعدم سمجھو مگر یہ کہ وہ مستند دلیل دے، اگر اس نے اپنی دلیل پیش کر دی تو اپنا حق لے جائے ورنہ اس کے خلاف فیصلہ ہو، کیونکہ یہی عمل شک مٹانے کے لیے زیادہ بہتر ہے۔‘‘ [2] یہ فرمان فاروقی اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کے دور میں حق دفاع کا پورا احترام کیا جاتا تھا اور اس کی مکمل حفاظت کی جاتی تھی۔ [3] رہائش گاہوں کی حرمت: رہائش گاہوں کی حرمت کا جہاں تک تعلق ہے تو اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے گھر والوں کی اجازت کے بغیر یا مالوف طریقوں کے خلاف گھروں میں داخل ہونا حرام قرار دیا ہے۔ ارشادِ الٰہی ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهَا ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (27) فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا فِيهَا أَحَدًا فَلَا تَدْخُلُوهَا حَتَّى يُؤْذَنَ لَكُمْ وَإِنْ قِيلَ لَكُمُ ارْجِعُوا فَارْجِعُوا هُوَ أَزْكَى لَكُم (النور: ۲۷۔۲۸) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے گھروں کے سوا اور گھروں میں داخل نہ ہو، یہاںتک کہ ان سے معلوم کر لو اور ان کے رہنے والوں کو سلام کہو۔ یہ تمھارے لیے بہتر ہے، تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔ پھر اگر تم ان میں کسی کو نہ پاؤ تو ان میں داخل نہ ہو، یہاں تک کہ تمھیں اجازت دی جائے اور اگر تم سے کہا جائے واپس چلے جاؤ تو واپس ہوجاؤ، یہ تمھارے لیے زیادہ پاکیزہ ہے ۔‘‘ اور فرمایا: وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا (البقرۃ:۱۸۹) ’’گھروں میں ان کے دروازوں کے راستہ سے داخل ہو۔‘‘
[1] نظام الحکم فی عہد الراشدین، ص: ۱۶۳ [2] نظام الحکم فی عہد الراشدین، ص: ۱۶۴